سادہ سا ایک غریب آدمی ہسپتال میں کھڑا اپنے پرانے سے رومال سے کبھی آنسو پونچھتا تھا اور کبھی بہتے ہوئے نزلے کو روکتا تھا اور آہستہ آہستہ بڑ بڑاتا ہوا سسکیاں بھی لے رہا تھا۔ اس پریشان حال کو ذرا قریب ہو کر دیکھا تو بہت ہی نحیف اور بے کس نظر آیا۔ پوچھا کہ بھائی میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں تو اس نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا اور جواب دیا کہ بائوجی بس معاف کرو۔یہاں کوئی کسی کا نہیں ہے۔ پندرہ دن ہو گئے اس ہسپتال میں میری بیوی داخل ہے کوئی علاج نہیں ہو رہا۔ ڈاکٹر کسی دن آ کر دیکھ لیتے ہیں نئی دوائی لکھ دیتے ہیں۔ میں غریب مزدور آدمی ہوں 15دن سے دیہاڑی پر بھی نہیں گیا۔ گھر میں بچے بھوکے ہیں۔ پھر نجانے اس میں کہاں سے طاقت آئی۔ وہ بے تکان بول رہا تھا۔ ہر ذمہ دار ہر افسر اس کے نزدیک خرابی کی جڑ تھا۔ اسے سمجھایا کہ بھئی سب ایک جیسے نہیں ہوتے اچھے برے ہر جگہ ہوتے ہیں۔ چڑچڑے پن سے بولا کہ مجھے تو ابھی تک کوئی اچھا نظر نہیں آیا۔یہ ملک اور یہ سرزمین ازاول تا آخر مسلمانوں کی وہ قلعہ بند سلطنت ہے جس کے باسی اپنے دین اور وطن سے بے پایاں محبت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ وطن ایک نمائندہ ہے اس وسیع وطن اسلامی کا جس میں انسانیت کی حقیقی رہنمائی کے لئے بہت سے طبقات کی فعال کارکردگی نہایت متحرک ہے اور وہ لوگ ایک اسلامی ملت کی نشاۃ ثانیہ کے لئے اپنی بہترین علمی اور عملی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہیں۔ دین مصطفی ﷺ کی عطا کردہ روشن اور قابل عمل تعلیمات کو دور جدید کی بھٹکی اقوام کے لئے ایک لائحہ ہدایت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ سب خدمات اسلامی دنیا میں نجی اور مقامی سطح پر کچھ صاحبان درد افراد اور اہل شعور طبقات سرانجام دے رہے ہیں اور ملت اسلامیہ کی قوت کو یکجا کرنے کے لئے ان کے ارادے‘ اعمال اور سعی و کوشش ہر لحاظ سے قابل تحسین اور قابل اطمینان ہیں۔ ایسے حقائق جن کا انکار کسی طرح سے بھی ناممکن ہے۔ہمارے علم میں لگاتار آتے رہتے ہیں۔ملت اسلامیہ کے مختلف حکمرانوں کی ذاتی انا پرستی اور ان کے گرد خوشامدی حلقہ داروں کے جھتے کبھی بھی ملت اسلامیہ کی اجتماعی سلامتی اور ملی غیرت کے نقیب نہیں ہو سکتے۔ ایک طویل عرصے سے مسلمان ممالک کی جغرافیائی حد بندیاں اور ان کے بین الاقوامی اثرات سے متاثر باہمی سیاسی، تجارتی اور معاشرتی تعلقات پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔ عربی و عجمی کی تفریق کا سب سے بڑا مظہر ایران اور سعودی عرب کی روز مرہ کی سیاسی باہمی سفارتی اور سیاسی کشمکش ہے ۔شام کے حکمران ایک بالکل غیر مایوس مذہبی جہت کا مظہر ہیں۔ ان کا مذہبی تشخص عامتہ المسلمین سے بالکل جدا ہے۔ وہاں کی مذہبی اکثریت پر ان لوگوں کو آمرانہ طور پر بیرونی حمایت سے تسلط حاصل ہے۔ شام کی آبادی مذہبی ثقافت۔ اسلامی تاریخی نقطہ نظر سے عالم اسلام میں ایک ممتاز اور انفرادیت حیثیت میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہاں پر اکابر ملت کی علمی و روحانی یادگاریں موجود ہیں اور تاریخی دنیا میں شام کی اہمیت بہت عیاں ہے۔ہماری گزارشاتِ بالا کے تناظر میں شام کے سیاسی اور مذہبی ماحول کے پس منظر میں غیر مسلم قوتوں کو اپنے تخریبی عزائم کی تکمیل کے لئے آسان قابل عمل فساد گری کے مواقع میسر ہیں۔عالم اسلام میں مایوسی کی سیاسی فضا میں اصلاح کے نام میں یہودیوں کی اشیر آباد ہے۔ ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں مسلمانوں میں باہمی عملی اختراق اور قتل و جدال کے نئے میدان پیدا ہوتے ہیں۔ باہمی نظری اور مذہبی اختلافات کو اس شدت سے ہوا دی جاتی ہے کہ تصادم کی راہیں آسانی سے میسر آتی ہیں۔معتبر و غیر معتبر تاریخی حوالوں کو نئے سرے سے مبنی بر تشکیک علمی حوالوں سے نوجوان مسلم طلبہ علماء کو بطریق احسن تضاد و تصادم کی ذہنی و علمی فضا میں گھسیٹا جاتا ہے ار پھر ان کو عسکریت کی جانب راغب کرنے کے بعد اسلاف مسلمین کی تحقیر کا عملی سامان کرنا بھی اسی صیہونی ابلیسی سازش کا نتیجہ ہوتا ہے۔ایک طویل عرصے سے ایک رکیک اور قلبی اذیت کا سبب وہ انداز ہے کہ مسلمان مشاہیر کے تاریخی وجود، ان کے مصلحانہ ومجاہدانہ اور انسان پرور کردار کو پروپیگنڈے کے زور پر متنازعہ اور پھر معاذاللہ قابل نفرت بنا دیا جائے اور آج کی ملت اسلامیہ کے جوانوں کو ان کی عظیم تاریخی و انسانیت نواز شخصیت سے اتنا متنفر کر دیا جائے کہ وہ ان کی نشان عظمت قبور کو منہدم کر دیں۔ یہ ذلیل ترین حرکت مسلمانوں کے روپ میں یہودی اور ہندو کرتے ہیں۔ حضرت حجر بن عدیؓ کی قبر مبارک کو پامال کیا گیا۔ ان کے متبرک لاشہ مبارکہ کی توہین کی۔ پھر نہایت جلیل القدر صحابی حضرت عمار بن یاسرؓ کہ جن کے خاندان کو اسلام کی اولین شہادت کا اعزاز حاصل ہے۔ ان کی قبر پُر برکات کی توہین کی۔بدن اقدس کی بے حرمتی کی گئی اور ابھی گزشتہ دنوں حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ جن کی اصلاح پروری اور انصاف پسندی نے عالم اسلام کی سیاست کو ایک پاکیزہ اور عادلانہ ماحول عطا فرمایا تھا۔ جو خلافت راشدہ کے منہج صالح کی ایک کڑی نظر آتے ہیں۔ ان کا احترام تاریخ اسلام کا متفقہ باب ہے۔ان کی قبر مبارک کو شق کیا گیا۔ بدن مبارک سے نہایت قاہرانہ اور انسانیت سوز سلوک کیا گیا۔ ایک ایک تنائو اور کھچائو کی نفرت سے معمور فضا بن گئی ہے کہ مسلمانوں کے بڑے گروہوں کو مسلکی اختلافات کے نام پر جدل و قتال کے میدان میں اتار دیا جائے۔ گزشتہ برسوں میں پاکستان میں مذہبی دہشت گردی کے دوران بہت سے ہندو جاسوس گرفتار ہوئے تھے۔ جو اسلامی مذہبی تشخص و لباس کے ساتھ اسلامی مراکز میں قیادت و سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔قارئین۔ ملت اسلامیہ میں فکری و عملی تصادم اور گروہوں میں جدل و فساد کے لئے یہ اسلام دشمن قوتوں کا پرانا انداز ہے۔ بیت المقدس کی بازیابی کے لئے مجاہد اکبر حضرت صلاح الدین ایوبیؒ کے دور میں ایک یہودی مسلمان مذہبی مصلح کا روپ دھار کر لوگوں کو جہاد سے دستبرداری کی ترغیب دیا کرتا تھا اور اس نے عوام میں جہاد بیزاری کا ایک بڑا حلقہ اپنی ڈرامائی اور طلسماتی شخصیت کے بل بوتے پر بنا لیا تھا۔ حضرت مجاہد اکبر نے ازخود جب اس امر قبیح کی انکوائری کی تو اس بدبخت نے اعتراف کیا کہ وہ یہودی ہے۔ جبہ و دستار کی اوٹ میں وہ ابلیسی گمراہی کا نمائندہ بنا ہوا تھا۔