اگر روایت کے معنی ایک طرح کی روحانیت یا تصوف کے لے لئے جائیں تو مطلب یہ نکلتاہے کہ اب اس کو سمجھا جائے کہ اس سے کیا مراد ہے۔ سلیم احمد نے جو بحث کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی نظر میں یہ تصوف یہ روحانیت دراصل اس بات سے پھوٹتی ہے کہ التوحید واحد،یعنی توحید ایک ہی ہے۔ جہاں بھی توحیدنظر آئے اسے حق پر سمجھو۔ وہ لوگ تو مابعد الطبیات میں ایک نکتہ نکالتے ہیں‘ وہ یہ کہ میٹا فزکس کے آخر میں ایس(s) کو بھی خارج کر کے میٹا فزک کا لفظ پڑھتے ہیں۔ مرا مسئلہ یہ ہے کہ میں اس معاملے میں بھی ایک نازک سا اعتراض رکھتا ہوں۔ اپنے 83کے مضمون میں اسے میں نے یوں بیان کیا تھا کہ میں وحدت الوجود کا پابند نہیں۔ توحید پر ایمان رکھنے کا مکلف ہوں۔ کیا مطلب‘ کیا میں نے توحید سے انکار کر دیا تھا۔ نہیں بھائی نہیں۔ اصل سلسلہ شازلیہ کی ساری بحث توحید کے اس تصور پر ہے جسے صوفیا وحدت الوجود کہتے ہیں۔ہمارے ایک صوفی بزرگ عبدالرحمن لکھنوی ہوئے ہیں آپ چاہیں تو فرنگی بھی کہہ لیں۔ انہوں نے کلمہ طیبہ کے ذریعے وحدت الوجود کو ثابت کیا تھا۔ اس پر پیر مہر علی شاہ نے ایک بڑا شاندار رسالہ لکھا جس میں کہا گیا کہ کلمہ طیبہ سے وحدت الوجود ثابت کرنے کا مطلب ہو گا کہ ہر مسلمان کا اس پر ایمان لانا ضروری ہو جائے۔ انہوں نے قرآنی آیات اور حدیث کے ذریعے اس وحدت الوجودی ذکر کی حدود کا تعین کیا۔وہ خود واحد الوجود مسلک کے تھے‘ مگر انہوں نے کیا خوبصورت تعریف کی۔ میں نے اس پر لکھا تھا کہ میں وحدت الوجود کی اس تعبیر کو مانتا ہوں جو عہد جدید میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور مولانا اشرف علی تھانوی نے کی ہے۔ اس پس منظر میں جب میں یہ کہتا ہوں کہ وہ توحید کو ماننے کا پابند ہوں۔ وحدت الوجود کا نہیں۔ میں علامہ اقبال کے مقام پر تو فائز نہیں ہوں کہ ابن عربی پر زندیقی کا بہتان لگا دوں ،ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں کہ حضرت شیخ اکبر ابن عربی اور شہاب الدین سہروردی ایک دوسرے کے نظریات کے مخالف تھے۔ خانہ کعبہ میں دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا۔ وہ خاموشی سے ایک دوسرے کے پاس سے گزرے۔ بعد میں دونوں بزرگوں سے جب ایک دوسرے کے حوالے سے پوچھا گیا تو دونوں نے ایک دوسرے کی تعریف کی۔ روحانیت کی دنیا میں یہی ہوتا ہے۔ ہم جانے کتنے اکابر صوفیا کے مکاشفات اور سطحیات کی تاویلیں کرتے رہتے ہیں۔ سو مجھے تو کسی کو گمراہ کہنے یا اس کی تکفیر کرنے سے معزور سمجھیے۔ وہ سب بڑے لوگ تھے میں ان کے پائوں کی خاک بھی نہیں۔ میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ مجدد الف ثانیؒ نے جو موقف اختیار کیا اس کے بعد کم ہی لوگوں کی وحدت الوجود کے حوالے سے کوئی انتہا پسندانہ موقف اختیار کرنے کی گنجائش ہوئی۔شاہ ولی اللہ تک اس نزاع لفظی کہہ کر اس باب کو بند کیا۔ہمارے زمانے میں کراچی میں ذہین شاہ ناجی اللہ ذرا اپنا موقف رکھتے تھے۔ ان کا دربار بھی ویسے خوب دربار تھا۔ ان دو نکات کے علاوہ ایک تیسرا نکتہ بھی تھا اور وہ یہ کہ اگر ادیان عالم کی اصطلاح کوئی اصطلاح ہے۔(یہاں اگر کو نظر انداز نہ کیا جائے) تو میں اس کی صرف اس شاخ کا پابند ہوں، جسے دین ابراہیمی کہا جاتا ہے۔ویسے دین ایک ہی ہے۔ یہی ہمیں قرآن اور اسلام نے سکھایا ہے۔ یہ بات اس لئے کہی کہ رینے گینوں نے اپنی بات کی وضاحت میں ہندو مت کے حوالوں کو بنیاد بنایا ہے۔ میں نے سلیم احمد سے کہا کہ آخر یہ رینے گینوںہندو کیوں ہو گئے۔ یہ بات غور کرنے کی ہے کہ انہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔کیوں؟حوالے تو وہ ہندو مت کے دیتے ہیں۔ اور اگر وہ دین ابراہیمی کے اس طرح قائل تھے جس طرح رسالت کا سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ انہوں نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا۔اس نکتہ کو اہم سمجھا جائے۔ شاید ہندو مت کا حوالہ انہوں نے اس لئے دیا کہ ان کے خیال میں یورپ کا صلیبی ذہن اسلام کے حوالے قبول نہیں کرے گا۔ اس لئے اسلامی نام اختیار کرنے کے بجائے وہ اپنا فرانسیسی نام استعمال کرتے رہے۔ میں اسے منافقت نہیں کہہ سکتا۔مصلحت کہہ لوں گی اور اگر آپ ناراض نہ ہوں تو مصلحت دینی بھی کہہ سکتا ہوں۔ اس زمانے میں ایک اعتراض میں نے اور کیا تھا‘ مگر اسے محض تحریر میں نہیں لایا تھا۔ صرف اتنا لکھا تھا یہ کہ توحید پر حد سے بڑا اسرار رسالت کی نفی ہے۔ زبانی یہ بھی عرض کیا تھا کہ اس گروہ کی فکر میں رسالت کا تصور نہیں ملتا۔(مارٹن لنگز نے تو ’’محمد نام سے شاندار کتاب لکھی) اس پر جمال پانی پتی بہت بھنائے۔ سراج منیر کراچی آئے تو ان کے پاس عرضداشت لے کر پہنچے انہوں نے دھیرے سے کہا کہ میر ٹھیک کہتا ہے۔ جمال پانی پتی شاید یہ بات لکھ بھی چکے ہیں۔ سچ پوچھیے کہ میں تو شرک فی الرسالت کو بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ اس گروہ کے جنونی اسلام کی وجہ سے میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ سب نظری بحیثیں کرتے ہیں۔