دہشت گردی صرف بیرونی طاقتوں کا گھناؤناکھیل نہیں ۔ اس میں اندرونِ ملک موجود عناصر اور قوتیں بھی ملوث ہیں۔جب دہشت گردی کا کوئی ہولناک خوں ریزی کا واقعہ ہوتا ہے ‘ یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں بیرونی دشمن طاقتیں ملوث ہیں خاص طور سے انڈیا۔ بات ٹھیک ہے کہ پاکستان کے دشمن ممالک دہشت گردی کروانے میں ملوث ہیں۔ انڈیا کے ساتھ ساتھ بعض سامراجی ممالک اس کام میں شریک ہیں۔ وہ بلواسطہ طور پر دہشت گردوں کو فنڈنگ‘ اسلحہ اور تربیت فراہم کرتے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کے اندر بھی امن کے دشمن موجود ہیں۔ جو لوگ دہشت گرد حملے کرتے ہیں وہ ہمارے ملک کے ہی باشندے ہوتے ہیں۔ ان وارداتوں کو انجام دینے والوں میں کبھی کوئی انڈین یا اسرائیلی شہری نہیں پکڑا گیا۔ ہمارے لوگ بیرونی طاقتوں کے آلہ ٔکاربننا پسند کرتے ہیں تو وہ قوتیں انہیں استعمال کرتی ہیں۔ اگرہمارے اپنے لوگ کسی بیرونی ملک کے ہاتھوں میں کھیلنے سے انکار کردیں تو کوئی زبردستی اُن سے دہشت گردی نہیںکرواسکتا۔ خود کش حملہ میں تو کارندہ کی اپنی جان چلی جاتی ہے۔ خود کش حملہ آور کے اندر اتنا شدید جذبہ اور محرک موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا۔اسے اپنے صحیح ہونے اور اپنے ہدف کے غلط ہونے کااتنا یقین ہوتا ہے کہ وہ اسے صفحہ ٔ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے۔ کسی انسان میںایسا شدید ولولہ آسانی سے پیدا نہیں ہوتا۔ اپنے وطن کی محبت میں مرنے اور مار دینے کا جذبہ تو قومی افواج کے سپاہیوں میں بہت محنت اور کوشش سے پیدا کیا جاتا ہے۔نجی تنظیموں کے کارکنوں میں کسی نظریہ سے والہانہ وابستگی کی بنیاد پر یہ تحریک اور لگن پیدا کی جاتی ہے۔ وہ کونسا نظریہ اور بیانیہ ہے جو ان خود کش حملہ آوروں میں اتنی تحریک پیدا کردیتا ہے کہ وہ اپنی جان کی قیمت پر خون کی ندیاں بہاتے رہتے ہیں؟ شدت پسند تنظیموں کا لٹریچرعام دستیاب ہے۔ تکفیری گروہ موجود ہیں ۔ یہ مذہب کی ایسی تعبیر کرتے ہیں جس کے مطابق ان سے مختلف مکاتب فکر کے لوگ کافر اور واجب القتل ہیں۔سوال یہ ہے کہ اسکا توڑ کرنے کی خاطر ہم کیا کررہے ہیں؟کئی برس پہلے نیشنل ایکشن پلان میں ہم نے عہد کیا تھا کہ شدت پسندی کے خلاف ایک جوابی بیانیہ بنایا جائے گا اور اسے فروغ دیا جائے گا لیکن آج تک ایسا نہیں کیا گیا۔ تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں پاکستان کے اندر شدت پسندی پر مبنی بیانیہ کو پھیلایا گیا۔اختلاف رائے کو تحمل سے برداشت کرنا اور متضاد نظریات کے حامل لوگوں کے ساتھ مل جل کر رواداری سے رہنے کا چلن کمزور پڑ گیا ہے۔ جن ملکوں نے شدت پسندی پر مبنی نظریات کو پاکستان میں پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا وہ آج اپنے ملکوں میںنائٹ کلب اور سینما ہاؤس کھول رہے ہیں۔ مغربی تہذیب کو اختیار کررہے ہیں۔ ایک انتہا سے دوسری انتہا پر جارہے ہیں۔ ہمارے خطہ میں عوام صدیوں سے مذہب کی ایک معتدل تشریح پر عمل پیرا تھے ۔ اب بھی لوگوں کی بڑی تعداد اس تعبیر پر عمل کرتی ہے لیکن چند دہائیوں سے ہمارے درمیان ایسے گروہ پیدا ہوگئے جو اپنے دشمنوں کو مٹانے کیلئے غیر مسلم طاقتوں سے مدد لینا بھی گوارا کرتے ہیں۔ دشمن ان گروہوں کو مسلمان ملکوں میںانتشارو افتراق پھیلانے کیلئے استعمال کررہے ہیں اور یہ بخوشی استعمال ہو رہے ہیں۔ شام‘ لیبیا اور عراق میںان گروہوں کی مدد سے خانہ جنگی اور تباہی پھیلائی گئی۔ افریقہ کے ’ساحل ‘ کے ممالک میں یہ گروہ سرگرم ہیں۔ ان کے کارکنوں کو شام سے کس ایجنسی نے افغانستان منتقل کیا اس موضوع پر روسی میڈیا میںرپورٹیں چھپتی رہتی ہیںکہ سامراج ان گروہوں کو رُوس کو غیرمستحکم کرنے کی غرض سے بھی استعمال کررہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ملکوں میں پاکستان واحد ملک ہے جہاں طویل عرصہ سے تواتر کے ساتھ دہشت گردی کی بڑی بڑی وارداتیں ہورہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ انڈیا‘ بنگلہ دیش ‘ سری لنکا میں ایسے واقعات با ر بار نہیں ہوتے؟ انڈیا میں کوئی بڑا واقعہ ہوجائے تو وہ پاکستان کا جینا حرام کردیتا ہے۔ ہم پر زور و شور سے دہشت گردی کروانے کی الزام تراشی کردیتا ہے اور نوبت جنگ چھیڑنے تک جا پہنچتی ہے۔ جیسا کہ پلواما واقعہ کے بعد ہوا تھا۔ بالاکوٹ پرفضائی حملہ ہوا۔ ہمارے ملک میں آئے دن دہشت گردی کے گھناؤنے واقعات ہوتے ہیں۔ پشاور سے پہلے کوئٹہ‘ تربت اور داسو وغیرہ میں سنگین وارداتیں ہوئیں۔ ہر بار الزام دشمن ملک پر لگایا گیا لیکن وارداتیں روکی نہ جا سکیں۔ پاک افغان اور پاک ایران سرحدوں پر باڑ لگادی گئی ہے تاکہ ان ملکوں سے دشمن ملکوں کے ایجنٹ ہمارے ہاں آسانی سے داخل نہ ہوسکیں لیکن دہشت گردی وقفے وقفے سے جاری ہے۔موجودہ صورتحال میں ریاستی اداروں کو اپنی حکمت عملی از سر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ایک کالعدم تنظیم کو قومی دھارے میں لانے اور اس سے مصالحت کرنے کی خاطرریاست نے اس تنظیم کے بہت سے گرفتار کارکنوں کو رہا کیا ۔اس کا صلہ یہ دیا گیا کہ دہشت گردوں نے پشاور میں معصوم نمازیوں کا بے دردی سے خون بہایا۔ مختلف شدت پسند تنظیمیں آپس میں منسلک ہیں۔ان کے نام الگ الگ ہیں لیکن ان کے کارکنوں میں یکجہتی اور گہرے رابطے ہیں۔ ان سے زیادہ خطرناک ان تنظیموں کے نظریہ ساز اور سہولت کار ہیں جو بظاہر پرامن نظر آتے ہیں لیکن دہشت گرد گروہوں کی مالی اور اخلاقی مدد کرتے ہیں۔انہیں لٹریچر فراہم کرتے ہیں۔ انہیں پناہ دیتے ہیں۔ٹرانسپورٹ مہیا کرتے ہیں۔ مرض دُور دُور تک پھیل چکا ہے۔ ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو دہشت گردی کا سلسلہ ختم نہیں ہوسکے گا۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب رہے تویہاں باہر سے آکرکون سرمایہ کاری کرے گا؟ حتی کہ چین کے سرمایہ کار بھی ڈر جائیں گے۔ معاشی ترقی پہلے ہی کئی دہائیوں سے سستی کا شکار ہے۔ اسے مزید نقصان پہنچے گا۔ ہمارا دشمن چاہتاہے کہ پاکستان معاشی طور پر مفلوج ہوجائے تاکہ اس کا عسکری دفاع کمزور ہو۔ بیرونی دشمن کو ہم اچھی طرح پہچانتے ہیں ۔ ان کا سد باب کرسکتے ہیں لیکن اصل چیلنج یہ ہے کہ اندرون ملک بدامنی اور شدت پسندی کے عوامل کا دیرپاخاتمہ کیا جائے۔