9نومبر کا دن کتنا خوبصورت سا محسوس ہوتا ہے کہ بابا گورونانک جی اور علامہ اقبال کا یکساں یوم پیدائش جو ہے‘ کیا یہ حسن تقدیر الٰہی نہیں کہ دونوں عظیم شخصیات کا جنم دن سکھوں اور مسلمانوں میں یکساں احترام اور یکساں محبت کے ساتھ منایا جارہا ہے۔9نومبرکو ہی وزیراعظم عمران خان ’’گوردوارہ کرتارپور دربار صاحب‘‘ کا افتتاح کر رہے ہیں جبکہ پوری دنیا کے سکھ دھرم کے مسلمان دوست انسان ممنون و مشکور ہیں ریاست پاکستان کے‘ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہ انہون نے سکھوں کو ان کا مقدس ترین مقام رسائی عنایت کر دی ہے۔ بابا گورونانک جی تلونڈی پھوٹی ضلع شیخوپورہ میں پیدا ہوئے۔ چوہڑکانہ میں ان کا گہرا تعلق قائم ہوا۔ ننکانہ میں مسلمان زمینداروں کے آغوش میں ان کی کچھ عمر گزری۔ ان کی سماجی کفالت مسلمان زمینداروں نے کی۔ ان کے مقدس سفر میں جتنی بھی زمین درکار ہوئی وہ ننکانہ کے سکھ دوست مسلمانوں نے عطیہ کی تھی۔ گورونانک روحانی سفر میں قرآنی تعلیمات سے بہرہ ور ہوئے۔مکہ مکرمہ کا سفر اسی طرح کیا جس طرح مسلمان حج کے لئے مکہ مکرمہ کا سفر کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ تھا کہ نانک جی تلاش حق میں مکہ مکرمہ تک گئے اور مسلمان حکم الٰہی کے مطابق فریضہ جج ادا کرکے حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت ہاجرہ‘ حضرت اسماعیلؑ سے وابستہ شعائر اللہ کا سفر اور طواف کرتے ہیں اور شیطان کو کنکریاں بھی مارتے ہیں۔ حسن ابدال میں پنجہ صاحب بابا جی کی روحانی کرشماتی شخصیت کا معجزانہ اظہار ہے۔ زندگی کے آخری بیس سال نانک جی نے دریائے راوی کے کنارے گائوں میں گزارے جو کرتارپور کہلاتا رہا ہے۔بھائی مردانہ اور بھائی بالا اس عرصے میں گورونانک جی کے ساتھ مقیم رہے۔ حسن ابدال سفر میں جہاں چشمے کا واقعہ پیش آیا وہاں بھی بابا مردانہ ہم سفر تھے۔ بابا فرید الدین مسعود گنج شکر کے افکار کا گورونانک پر خاص طور پر اثر نمایاں ہے۔ بابا گنج شکرؒ کی پندرہویں پشت میں ان کے پوتے شیخ ابراہیم چشتی کے مرید ہوئے۔ اسی سبب کہا جاتا ہے کہ مسلمان صوفیاء کا گورونانک کی فکری تشکیل میں اہم ترین حصہ ہے۔ بابا گورونانک نے ہندوستان‘ لنکا‘ ایران و عرب کے سفر کئے اور 40سال تک ان ممالک کے مقدس مقامات میں اپنے فکری اسلوب کی غذا حاصل کی۔ شیخ مشرف الدین بوعلی قلندر پانی پتی کے آستانہ پروہ کافی مدت مقیم رہے۔ آپ کا مشن انسانی محبت و خدمت و رواداری کے ذریعے مسلمانوں اور ہندوئوں کو ایک سماجی ماحول دینا تھا۔ آپ نے اعلان کیا کہ ’’خدا ایک ہے اور اس کا خلیفہ نانک سچ بولتا ہے‘‘ ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں ’’گورونانک پیغمبر اسلام کو اپنا رہبر سمجھتے تھے اور ان کی تعلیمات میں یہی اسلامی رنگ ہے۔ صوفیوں کی طرح نانک جی گورویا رہبر کی متابعت کو لازمی تصور کرتے تھے۔ علامہ اقبالؒ کے ہاں بابا گورونانک کی اہمیت دیکھنا ہو تو ان کی نظم ’’نانک‘‘ ملاحظہ کریں۔ (کلیات اقبال بانگ درا حصہ سوم صفحہ 195) علامہ نے اس نظم میں نانک کو ’’مردکامل‘‘ کہہ کر مخاطب کیا ہے ولی محمد نظیر اکبر آبادی نے بھی انہیں ’’کامل رہبر‘‘ (اپنی نظم گورونانک جی کی مدح) میں لکھا ہے۔ کلیات نظیر اکبر آبادی میں یہ نظم موجود ہے جاوید ششت جیسے اہم شاعر نے بھی اپنی نظم ’’ ذکر نانک‘‘ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری پر ان کے کرکٹر دوست نوجوت سنگھ آئے تو انہوں نے وزیراعظم عمران اور جنرل قمر جاوید باجوہ سے کرتارپور کا تحفہ مانگ لیا۔ ہماری عظیم دونوں شخصیات نے غیر مشروط پر سکھ دھرم کے لئے پاکستانی حسن اخلاق کے طور پر نوجوت سنگھ کی بات مان لی اور انہیں سکھوں میں سرخرو کر دیا لہٰذا سکھ آج وزیراعظم عمران خان اور جنرل قمر جاوید باجوہ کو محسن سکھ ہیروز کے طور پر خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ میں جرأت کرتے ہوئے ان دونوں کے ساتھ ایک اور عظیم سکھ محسن ہیرو کا تعارف کروا رہا ہوں یہ محمد سلیم بیگ اصل اور پہلے محسن ہیں سکھ دھرم اور بابا گورونانک کی تعلیمات پر عمل پیرا انسانوں کے انہوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلیکیشن‘ وزارت اطلاعات و نشریات 2015-16ء میں ’’گوردوارہ کرتار پور دربار صاحب‘‘ نامی ساڑھے پانچ منٹ کی پہلی تاریخی ڈاکومنٹری بنوائی۔ وزارت کی ویب سائٹ‘ یوٹیوب‘ سوشل میڈیا پر اس کو پیش کیا اور خوب تشہیر کی سکھوں نے دنیا بھر سے ان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی معرفت سکھوں کو ان کا مکہ مکرمہ جاننے کو ملا ہے۔محمد سلیم بیگ نے دوسری ڈاکومنٹری کٹاس راج مندر کی بنوائی۔ محمد سلیم بیگ کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے اپنی تعلیم گورنمنٹ کالج لاہور سے حاصل کی اور صدر اسٹوڈنٹس یونین بھی رہے۔ ایم اے پولٹیکل سائنس کیا اور 1983ء میں لیکچرار زمیندارہ کالج گجرات رہے۔ پھر سول سروس اختیار کرتے ہوئے وزارت اطلاعات و نشریات سے وابستہ ہوگئے۔ انہوں نے کئی وزرائے اعظم کے ساتھ بطور پریس سیکرٹری خدمات سرانجام دیں۔ 29جون 2019ء کو سپریم کورٹ کی وساطت سے وہ چیئرمین پیمرا مقرر ہوئے۔ میرا ان سے تعارف اس وقت ہوا جب وہ ڈپٹی سیکرٹری تھے اور اکثر قومی اسمبلی میں وزارت کی طرف سے آتے تھے۔ میں ان دنوں مسلم لیگ (ج) کا ترجمان اور ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات تھا۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے وزارت اطلاعات میں اکثر ایسے حضرات سے رابطہ رہا جو پی آئی او اور سیکرٹری اطلاعات و نشریات رہے۔ مگر تاریخ‘ ثقافت‘ سیاسیات کے حوالے سے تہذیبی اثرات کا حافظ اور تجزیہ کار مجھے محمد سلیم بیگ کے سوا کوئی نہیں ملا۔ میں آج وزیراعظم عمران خان‘ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ساتھ محمد سلیم بیگ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے کرتارپور دربار صاحب کے حوالے سے تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ سکھ تہذیب اور مسلمانوں میں نئے سماجی و معاشرتی محبوب ترین عہد کے آغاز میں یہ تینوں حضرات بنیادوں کے مضبوط پتھر بن کہ تاریخ میں رقم اور امر ہوگئے ہیں۔