اگلے روز ایک تقریب میں پیارے دوست توقیر جدون نے کھانے کی میز پر مجھے گزرے ’خاکی دنوں‘ پر لکھنے کو کہا۔یوں بھی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی مڈل کلاسیوںکی بڑی تعداد جوگزشتہ چند برسوں سے بوجہ ملکی معاملات پرمتحرک دکھائی دے رہی تھی، ایک بارپھر لاتعلقی کے خول میں واپس لوٹ رہی ہے۔توآئیے پھر کچھ ماضی کے دریچوں میں جھانکتے ہیں۔ ساڑھے تین سال ازکارِ رفتہ سپاہی نے جو فاٹا کی تین ایجنسیوں بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں گزارے،دل وجان پر گزری ایک داستان ہے جسے ایک عرصہ سے قلم بند کرنے کی آرزورہی ہے۔نوک پلک ٹھیک کرنے کو طویل اوربے ترتیب مسودے کو اٹھاتا ہوں تو کئی نئے چہرے،مقامات اور واقعات یادوں کے جھروکوں سے جھانکنے لگتے ہیں۔دوسری طرف ایک محدوداخباری کالم میں درد کی طویل داستان کو سمویا بھی کیسے جاسکتا ہے کہ اس جاں گسل دور کے کسی ایک لمحے کو دوسری ساعت سے جدا کیا نہیںجا سکتا۔ڈویژنل ہیڈکوارٹرز کے احکامات پر تنہا اورکبھی بریگیڈیر نویدکے ساتھ مل کر کئی ایک سانحات کی تحقیقات بھی کیں۔ جنرل نیاز خٹک کی اس وقت زیرِ تدوین کتاب کیلئے ڈھیروں صفحات پر مبنی مواد کی چھان پھٹک میں معاونت کا موقع بھی ملا۔ وحشت ، فریب، دکھ اور بے بسی سے لبریز انسانی رویے بہت قریب سے دیکھنے کو ملے۔ اس باب میں کچھ ترتیب سے مگر لکھ نہیں پایا۔ برسوں بعد اب شطرنج کی بساط پر جو مہروں کو حرکت میں دیکھتا ہوں، تو پرانے زخموں میں ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔ وسوسے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ سال2002ء میں کوہاٹ میں یونٹ کی کمان سنبھالی تو افغانستان پر امریکی حملے کے بعدہر رنگ و نسل کے جنگجو ہمارے قبائلی علاقوں میں امنڈتے چلے آ رہے تھے۔جنوبی وزیرستان میں زیادہ تر غیر ملکیوں کا تعلق ازبکستان، تاجکستان اور چیچنیا سے تھا جو اپنی خونخواری کیلئے جانے جاتے تھے۔کچھ عرب بھی تھے۔بظاہر باریش ،پرہیز گار دکھائی دیتے اور قرآن کی طویل اور رقت آمیز تلاوت کرتے۔ چنانچہ حراست میں لیے جانے کے باوجود ہمارے جوان ان سے اپنائیت اور احترام کا سلوک کرتے۔یونٹ کی کمان سنبھالتے ہی میں کرم، اورکزئی،شمالی اور جنوبی وزیرستان ایجنسیوں سے واقفیت کے لئے روانہ ہوا جو کہ میرا ان علاقوں کا پہلا سفر تھا۔ ویران پہاڑوں، ہیبت ناک گھاٹیوں اور غیر مانوس راستوں سے سفرکرتے ایک رات میران شاہ میں ٹھکانہ کیا۔ رات کا کھانا اپنے کمانڈو کورس میٹ کرنل کمال امان کے ساتھ کھایا۔بہت سے دیگر معاملات سے آگاہی کے علاوہ کمال امان نے مجھے بنوں، وانا مرکزی شاہراہ کی بجائے لدھا، مکین کے غیر مانوس مگر ’شارٹ کٹ‘ راستے سے سفر کی تجویز دی۔ کہا جاتا ہے منزل اکثر غیر مانوس راستوں سے ملتی ہے۔کمال امان نے چلتے ہوئے صرف ایک مشورہ دیا کہ لدھا اور مکین کے بازاروں کے اندر سے گزرتی شاہراہ پر ہتھیار بند مقامی سڑک کے بیچوں بیچ چلنے کے عادی ہیں۔ کسی ٹہلتی ٹولی کے پیچھے ہارن نہ بجانا۔ چار پانچ دن کے سفر کے بعد تین ایجنسیوں سے ہوتے ہوئے ہم رزمک، وانا شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے پہلی بار کسی فوجی کیمپ کے باہرکانی گرم کے مقام پر نماز ظہر کیلئے رکے۔(کانی گرم عمران خان کی والدہ کاآبائی گائوں ہے)نماز کی ادائیگی کے بعدمسجدسے باہرنکل کر دیکھا تو درہ آدم خیل سے تعلق رکھنے والا میرا گن مین بندوق کو بڑی شان کے ساتھ کندھے پر چڑھائے مور کی سی چال چل رہا تھا ۔ اسی دوران نسبتاً ایک کھلے مقام پرگول دائرے میں کرسیاں بچھائی جا چکی تھیں جہاں گاؤں کے مَلک اور معززین بیٹھے ہمارے منتظر تھے۔نہایت خوشگوار ماحول میں ہم نے مقامی بسکٹوں کے ساتھ چائے پی۔بے حد اپنائیت کے ساتھ ہمارے قافلے کو وہاں سے رخصت کیا گیا۔آنے والے چند مہینوں میں فوج اور غیر ملکی جنگجوئوں کے درمیان آنکھ مچولی جاری رہی جس میں دونوں اطراف نے جانی نقصان اٹھایا، مگر معاملات ایک دائرے کے اندر رہے، تاآنکہ غیر ملکیوں نے مقامی جنگجوؤں کے ساتھ مل کر ایف سی کے دو قافلوںپر خوفناک حملے کیے۔ دن دہاڑے وانا کے اعظم بازار میںفوج کے ایک جوان کے سینے میں گولی اتاردی گئی۔تناؤ کے اس ماحول میںایک چیک پوسٹ سے ایک مسافر وین کو مشکوک سمجھ کر نشانہ بنا ڈالا گیا۔ بدلے میں فروری 2003ء میں میری یونٹ کے قافلے پر سروکئی کے مقام پر گھات لگائی گئی۔ نوجوان لیفٹیننٹ طیب نے میرے کورس میٹ شاہد اشرف کی ’قائد سیپرز ‘انجینئر بٹالین کے ایک میجر اور22جوانوں سمیت جام شہادت نوش کیا۔جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو چکا تھا۔پاکستان کے قبائلی علاقے آنے والے کئی برسوں کے لئے تاریکی میں ڈوب گئے۔کچھ عرصہ بعد ازکارِ رفتہ سپاہی کو ایک بار پھر لدھا اورکانی گرم کے درمیان شاہراہ سے گزرنے کا موقع ملا تو سب کچھ بدل چکا تھا۔ بھاری حفاظتی بندوبست کے بغیراب اس شاہراہ پر سفر نا ممکن تھا۔چنانچہ وانا سے بنوں آمدورفت کیلئے ہم وانا، جنڈولہ،ٹانک شاہراہ کو حفاظتی بندوبست کے سا تھ ہی استعمال کرتے۔جنڈولہ، مکین شاہراہ پر واقع ’کوٹ کئی ‘نامی بستی مکمل طور پر غیر ملکی دہشت گردوں کے قبضے میں تھی۔اس بستی میں دو جیپوں پر سوارہمارے چند نوجوان افسر اور جوان غلطی سے داخل ہو گئے اور گھیرے جانے کے بعد ایک مکان کی کھلی چھت پر پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ تین روز تک بھوکے پیاسے، جاگتے اور لڑتے رہے۔چند روز بعد صورت حال نارمل ہوئی تو مقامیوں کا ایک لشکر جسے’چل وشتی ‘کہا جاتا ہے فوج کی درخواست پر غیر ملکیوں سے علاقہ خالی کروانے کیلئے امن مذاکرات کی غرض سے جا رہا تھا کہ کسی ’نامعلوم‘ گولے کی زد میں آ کر شدید جانی نقصان اٹھا کر ، ناکام واپس لوٹ آیا ۔غیر ملکی اور مقامی جنگجوؤں نے الزام پاک فوج کے توپ خانے پردھرا۔ فوج کی جانب سے انکوائری کا حکم ہوا۔ میںفیکٹ فائنڈنگ کیلئے بریگیڈیر نوید کے ساتھ جنڈولہ کے قلعے میں تھا کہ ایک دفتر میںجنگجوؤں کے درمیان سنی گئی گفتگو کا تحریری ریکارڈ دیکھنے کو ملا۔اتفاقاً دو مقامی افراد کی گفتگو بھی اس ٹرانسکرپٹ میں شامل تھی، جس کا لب لباب یہ تھا کہ ،’’ہم کدھر جائیں۔ ادُھر جاتے ہیں تو طالبان مارتے ہیں، اِدھر آتے ہیں تو فوج کا گولہ سر پر پھٹتا ہے‘‘۔تار یکی کے اس دور میں قبائل میں رائج صدیوں پرانی روایات تہہ تیغ ہو چکی تھیں۔ قبائلی’ مَلک‘ کا ادارہ مسلح تنظیموں کے سامنے بے اثر ہو چکاتھا۔ کچھ علاقوں پر اسلحہ بردار دہشت گردوں کا دور دورہ تھا ،جبکہ شاہراہوں پر فوج قلعہ بند تھی۔بے گناہ قبائلی چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا تھا۔ چند برس قبل کچھ سطریں ازکارِ رفتہ نے اس وقت قلم بند کی تھیں، جب شہری علاقوں میں سول سوسائٹی کے ساتھ ساتھ جنگ زدہ شمال مغربی سرحدی علاقوں میں پی ٹی ایم نامی ایک’تحریک‘بھی راتوں رات نمودار ہو چکی تھی۔آج وہ سول سوسائٹی اور پختونوں کی تحریک کس طرف کھڑی ہے ،ہم نہیں جانتے۔پاکستان کا مظلوم بے گناہ قبائلی مگر آج بھی اسی ’شیطانی گریٹ گیم‘ سے متعلق وسوسوں کا شکار ہے، جس کے صرف کھلاڑی بدلتے ہیں۔مہرے وہی رہتے ہیں۔