2 روز میں دہشت گردی کے چار واقعات ہوئے ہیں۔ تین واقعات میں سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا۔ ایک میں سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ عام شہری شہید و زخمی ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا واقعہ میانوالی ٹریننگ ایئر بیس کا ہے جہاں 9دہشت گرد گھس گئے۔ آئی ایس پی آر کے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گرد تین گرائونڈ کئے طیاروں اور ایک فیول باوزر کو معمولی نقصان پہنچانے کے سوا کچھ نہ کر سکے ۔ سکیورٹی فورسز نے تمام حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا ہے۔ میڈیا کمیونی کیشن میں ایسی کئی ٹیکنیکس پڑھائی جاتی ہیں جب کوئی فریق اپنی کارروائی کو ہدف بننے والے فریق کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔یعنی چور مچائے شور والی تیکنیک۔حالیہ حملوں پر کچھ مشکوک سوشل میڈیا اکائونٹس سے پروپیگنڈہ یکایک شروع ہو گیا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ 3نومبر کی رات بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ سے منسلک کئی اکائونٹس نے 4تاریخ کو میانوالی میں حملے کا اشارہ دیا اور کہا کہ اس دن کچھ بڑا ہونے جا رہا ہے۔اگلے دن ’’بڑا‘‘ ہو گیا۔ بھارتی سوشل میڈیا اکائونٹس نے 9مئی کے واقعات کی تصاویر کو میانوالی حملے کی تصاویر کے طور پر دکھانا شروع کر دیا۔ ساتھ ہی یہ تاثر دیا گیا کہ یہ واقعات سٹیج مینجڈ ہیں تاکہ الیکشن روکے جا سکیں۔ افسوسناک امر یہ کہ پہلے سے سکیورٹی اداروں کے خلاف سرگرم اکائونٹس نے بھارت کی اس مہم کو دانستہ یا نادانستہ طور پر آگے بڑھانا شروع کر دیا۔ دشمن ہمیں نشانہ بنا کر ہمارے ہی لوگوں کے ذریعے ہمیں قصور وار بتا رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بلاشبہ بھارت کا ہاتھ ہے۔بھارت تحریک طالبان پاکستان اور کچھ قوم پرست عسکریت پسندوں کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر رہا ہے۔ٹی ٹی پی اور اس کے دھڑے اکثر پالیسی پر متفق نہیں ہوتے ہیں، جس نے اس کی قیادت کو ایک چیلنج دے رکھاہے، لیکن اس کے بنیادی مقاصد میں پاکستان کی سکیورٹی فورسز سے لڑنا شامل ہے۔ قیادت کی تبدیلیوں نے ٹی ٹی پی کی حکمت عملی کو وقفے وقفے سے بدلاہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ گروہ القاعدہ کے قریب ہوتا گیا اور ملا فضل اللہ کی قیادت میں 2013 میں مہلک حملے کیے گئے۔ اگرچہ زیادہ تر حملے فاٹا اور پڑوسی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ہوتے رہے ہیں تاہم ٹی ٹی پی پورے ملک میں بڑے شہروں کو نشانہ بناتی ہے۔ جون 2014 میں سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے پر بات چیت کی کوشش کی۔کراچی میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد، حکومت نے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے مراکز کے خلاف ضرب عضب آپریشن شروع کیا۔ آپریشن نے دس لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر کیا اور اس پر اربوں ڈالر لاگت آئی۔ دسمبر 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا ۔ پاکستان کی تاریخ کے سب سے مہلک ترین دہشت گرد حملے میں تقریباً ایک سو پچاس افراد شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر سکول کے بچے تھے۔ اس کے جواب میں پاکستانی سیاسی جماعتوں نے ملک بھر میں دہشت گردی اور انتہا پسندانہ نظریات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کیا، اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے سزائے موت پر عائد پابندی کو ختم کر دیا تاکہ سزا یافتہ دہشت گردوں کی پھانسی کی اجازت دی جا سکے۔ پاکستان ریکارڈ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سے دوچار ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ پاکستان آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پر انحصار کرنے لگا ہے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالا جا رہا ہے۔ روزگار کے مواقع کی کمی نے ملک سے نقل مکانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ جون 2023 میں تین سو سے زیادہ پاکستانی تارکین وطن یورپ پہنچنے کی کوشش میں اس وقت ہلاک ہوئے جب ان کی کشتی یونان کے ساحل پر ڈوب گئی۔ سنگین معاشی صورتحال نے پاکستان کو IMF کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بجٹ میں مشکل کٹوتیوں اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا ہے، جس سے عوامی بے چینی پھیل سکتی ہے۔پاکستان کی معاشی پریشانیوں کو مزید بڑھاتے ہوئے، موسمیاتی تبدیلیوں نے ملک میں قدرتی آفات خصوصاً سیلاب اور گرمی کی لہروں کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ 2022 کے موسم گرما میں بے تحاشا بارشوں نے ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈ بو دیا۔ کچھ علاقوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں، جس سے پندرہ ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک یا زخمی ہوئے اور آٹھ لاکھ بے گھر ہوئے۔ تعمیر نو کے اخراجات اور معاشی نقصانات کا تخمینہ تیس ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا۔ عالمی بینک کا کہنا ہے کہ آلودگی اور ماحولیاتی انحطاط کے ساتھ مل کر شدید موسمی آفات 2050 تک پاکستان کی جی ڈی پی میں تقریباً بیس فیصد کمی کر سکتی ہیں۔ان حالات سے نمٹنے کے لئے حکومت اور پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر جدو جہد کر رہے ہیں۔دہشت گرد ان مساعی کو غیر موثر کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان نے غیر قانونی افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کا عمل شروع کر رکھا ہے ۔دہشت گردی کے واقعات افغان سر زمیں سے ہوتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں ان عناصرکی موجودگی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر نہیں دیکھنا چاہتے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں ملک دشمن عناصر کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور قوم کو ان کا اصلی چہرہ نظر آ گیا ہے۔ سب سے قابل مذمت بات یہ ہے کہ ان کے حامیوں نے سوشل میڈیا پر ایک مذموم بیانیہ شروع کر دیا جس میں دہشت گردوں کی بجائے اپنے ہی محافظوں کو قصور وار قرار دیا جا رہا ہے۔ دہشت گرد ہمارے دفاعی اثاثوں، ہماری یکجہتی، ہمارے استحکام کو نشانے پر رکھے ہوئے ہیں، وہ ہمیں ہمارے اداروں اور شخصیات کے خلاف بد گمان کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کر رہے ہیں۔