دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مناسب اقدامات کے باعث وطن عزیز میں امن وامان کی صورت حال بہت حد تک بہتر ہوئی ہے۔ دہشتگردوں کو مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے پاکستان نے تسلی بخش اقدامات کیے جنہیں ایف اے ٹی ایف ممبر ممالک نے بھی سراہا۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ملک میں دہشت گرد گروپ کا کوئی وجود نہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پیشہ ور اور ماہر فوجی ہیں۔انہوں نے ملک کے اندرونی حالات کو کنٹرول کرنے کے ساتھ بین الاقوامی برادی کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے ہیں۔ پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے یعنی’’نیکٹا‘‘ نے ملک میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ایک قومی پالیسی وضع کی ہے جس میں مدارس اور سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کے نصاب کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں اصلاحات کی سفارش کی گئی ہے۔ اگرچہ یہ پالیسی وفاقی حکومت نے وضع کی ہے جس کے تحت انسداد انتہاپسندی کے لیے مختلف سفارشات اور اقدامات تجویز کیے گئے تاہم صوبائی حکومتیں اپنے حالات اور ثقافتی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پالیسی پر عمل درآمد کے لیے حکمت عملی طیکر سکتی ہیں۔اس پالیسی میں ان عوامل کی نشاندہی بھی کی گئی ہے جو معاشرے میں انتہا پسندانہ سوچ اور تشدد کی وجہ بن رہے ہیں اور ان کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات بھی تجویز کئے گئے ہیں جن میں نوجوانوں کو صحت مند سرگرمیوں کی طرف راغب کرنا اور انہیں روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی شامل ہے۔پالیسی میں ملک میں قائم دینی مدارس کو مرکزی تعلیمی دھارے میں لانے کے لیے ان کے نصاب کو جدید تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ انتہا پسند سوچ بننے میں کئی سال لگے ہیں اس کو تبدیل کرنے میں بھی وقت لگے گا۔ ہر شعبے میں دور رس اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے جن میں مدارس کا تعلیمی نصاب، جیل اصلاحات، غربت کا تدارک کرنا بھی شامل ہے۔ان تجاویز پر عمل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔ اس سے ملک میں دہشت گردی میں کمی آنے سے انتہاپسندی کے رجحانات میں بھی کمی آئے گی۔ایک مسئلہ انتہاپسندی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کا چیلنج ہے۔ اول ترجیح تو دہشت گردی کا خاتمہ ہونا چاہیے تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو۔ اس کے لیے دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل کے تحت عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ملک میں جاری آپریشن ردالفساد کی وجہ سے دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے لیکن حالیہ ہفتوں میں ملک میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات میں پڑھے لکھے نوجوانوں کے ملوث ہونا، نوجوانوں میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کرتا ہے ۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ داعش اور اس جیسی شدت پسند تنظیمیں نوجوانوں کو اپنے ساتھ شامل کرنے پر توجہ دے رہی ہیں جس کا بروقت تدارک ضروری ہے۔ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف امریکی آپریشن سے دہشت گردی پاکستان میں پھیلی، تاہم اب خطے میں دہشت گرد گروپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ آپریشن رد الفساد سے بڑی کامیابی ملی۔ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت پہلے بھی یہ کہتی رہی ہے کہ ملک میں پہلے سے موجود شدت پسند گروپس دولت اسلامیہ کا نام استعمال کر رہے ہیں۔ چند افراد ایسی تنظیموں کی فکر اور تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوتے ہیں اور اس کو درست سمجھتے ہیں اور یہی افراد مختلف نیٹ ورکس کے ذریعے ایسی تنظیموں سے رابطے میں آ جاتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے طور پر کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ گذشتہ برسوں میں ہونے والی کارروائیوں کے نتیجے میں یہ گروہ کمزور ضرور ہوئے ہیں، مگر مکمل ختم نہیں ہوئے۔ پاکستان میں اب صورتحال پہلے جیسی نہیں اور متعدد فوجی آپریشنز اور کریک ڈاؤنز کے بعد اب شدت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہیں کم ہو گئی ہیں۔دولتِ اسلامیہ اور دوسرے گروپ افغانستان میں اپنی جگہیں بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر پاکستان میں شاید ان کے لیے اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔دہشت گردی کی جنگ میں ہم نے پچھتر ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔دہشت گردوں کے خاتمے میں ملک کو ایک سو تئیس ارب ڈالر سے زائد کا معاشی نقصان ہوا۔ شام اور افغانستان میں پسپائی کے بعد عالمی دہشت گرد تنظیمیں بھارت کو نیا وار زون بنانا چاہتی ہیں اور اس کے لیے انھیں کشمیر مناسب لانچ پیڈ لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئے اعلان میں ’ولایہ ہند‘کہا گیا۔حالانکہ ابھی تک ایسے شواہد نہیں ملے ہیں کہ یہاں داعش یا القاعدہ کا کوئی نیٹ ورک ہے، لیکن یہ رحجان قابل تشویش ہے۔کشمیر کی ہند مخالف مسلح تحریک میں کچھ نوجوان ایسے ضرور ہیں جو دولت اسلامیہ کے عالمی جہاد کے نظریہ سے متاثر ہیں۔یوں سمجھ لیجیے کہ کشمیر میں داعش موجود نہیں البتہ کچھ لوگ داعش نواز ضرور ہیں۔ بعض عسکریت پسندوں نے کشمیر کی سب سے پرانی عسکری تنظیم حزب المجاہدین سے ناتا توڑ کر’اسلامک سٹیٹ جموں کشمیر‘ یا ’دولت اسلامیہ جموں کشمیر‘کا اعلان کر کے ذاکر موسیٰ کو اس کا قائد قرار دیا، تاہم اس پر علیحدگی پسندوں اور عسکری گروپوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔بھارت امریکہ کا خاص حلیف بن رہا ہے۔ کشمیر میں دولتِ اسلامیہ آ گئی تو کشمیر میں انڈیا کی جنگ امریکہ کی عالمی جنگ کا حصہ بن جائے گی اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم انسانی حقوق کی پامالی نہیں بلکہ عالمی سطح پر جاری ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے زمرے میں دیکھے جائیں گے۔کشمیر کی بعض ریلیوں میں بھی دولت اسلامیہ کے پرچم نظر آئے ہیں۔یہ تنظیم کشمیر کی مسلح تحریک کو پاکستان کے کنٹرول سے الگ کرنا چاہتی ہے، لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس کا کسی عالمی نیٹ ورک کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ذاکر موسیٰ کی نئی تنظیم داعش نہیں بلکہ القاعدہ سے متاثر ہے۔