کوہاٹ میں دہشت گردوں کے حملے میں چار پولیس اہلکاروں کی شہادت کے بعد ملک میں تشویش کی ایک نئی لہر پیدا ہو گئی ہے کہ جب خدمت کرنے والے لوگ بھی دہشت گردوں سے محفوظ نہیں تو پھر کون محفوظ ہوگا؟ وزیر اعظم نے اپنی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں باجوڑ میں پولیو ٹیم کی حفاظت پر معمور پولیس اہلکاروں پرحملے کی شدید مذمت کی اور کہا کہ دہشت گرد پاکستان کی چوبیس کروڑ عوام کو شکست نہیں دے سکتے۔ وزیر اعظم کا بیان اپنی جگہ مگر یہ بھی دیکھئے کہ دہشت گردی کے واقعات میں کمی نہیں آئی، چند دن پہلے وسیب سے تعلق رکھنے والے چھ سرائیکی مزدوروں کو وزیرستان میں بے دردی سے قتل کر دیاگیا۔ ایک نو عمر بچہ جو دہشت گردی کا شکار ہونے سے بچ گیا اس نے ڈیرہ غازیخان میں دہشت گردی کے واقعہ کا احوال بیان کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد پشتو بولنے والے تھے، ایک اردو بولتا تھا اُس نے حکم دیا کہ پیسے لے کر آئو، جو رقم پڑی تھی اُس کو ایک آدمی اٹھا کر لے آیا اور اُن کے حوالے کر دی، بعد میں اُردو بولنے والے نے کہا کہ تم فوج کے جاسوس ہو؟ پھر دہشت گردوں نے سب کو قتل کر دیا۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ ریاست شہداء کے لواحقین کو کبھی نہیں بھولے گی۔ دہشت گرد جس قدر بزدلانہ کارروائیاں کریں گے اُن کے خلاف جنگ میں اسی قدر تیزی آئے گی۔سوال یہ ہے کہ کیا سرائیکی مزدور شہید نہیں ہیں؟ اس سے پہلے بلوچستان میں سالہاسال سے سرائیکی مزدور قتل ہوتے آرہے ہیں، وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ میں سے کسی کو تعزیت تک کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔ اب سب کو پتہ چل رہا ہے کہ افغانستان کی معرفت پاکستان میں دہشت گرد کارروائیاں ہو رہی ہیں، ہم انہی کالموں میں مسلسل لکھتے آرہے ہیں مگر کسی نے توجہ نہیں دی۔ نسل کی بنیاد پر افغان دہشت گردوں سے ہمدردی صرف عمران خان کو نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمن کو اُس سے بھی بڑھ کر ہے، وہ حال ہی میں افغانستان گئے وہاں سے انہوں نے طالبان حکومت کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں اور افغان مہاجرین کی واپسی کے مسئلے پر اُن سے ہمدردی کا اظہار کیا۔ یہ سب کچھ کیا ہے؟ قوم کو بتایا جائے کہ یہ دہرے معیار کیوں ہیں؟ دہشت گردی کا شکار ہونے والے پاکستانیوں سے ہمدردی سے نہیں مگر غیر ملک کے دہشت گردوں سے ہمدردیاں کس بناء پر ؟ روزنامہ 92 نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان عبوری حکومت سے ہمسائے پریشان ہیں، امارات اسلامی کالعدم گروہوں کو روکنے میں ناکام ہو گئی، افغانستان کے حوالے سے آئندہ ہفتے ایران اور پاکستان سر جوڑ کربیٹھیں گے، ایران سے ملحق افغان علاقوں میں کالعدم داعش اور اہرانی داعش العدل کے دہشت گرد پناہ لیتے ہیں، ذرائع کے مطابق افغان عبوری حکومت پر پاکستان کے علاوہ ایران کے بھی تحفظات ہیں جبکہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان اور ایران ایک پیج پر کھڑے ہیں، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران افغانستان کے صوبے نبروز، سیستان، بلوچستان، سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل سے پریشان ہے، ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان میں اکثر دہشت گرد داخلے کیلئے افغان صوبے نبروز کا استعمال کرتے ہیں، دونوں ممالک نے ابھی تک امارات اسلامی افغانستان سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھے ہیں، پاکستان اور ایران افغانستان کو تحفظات سے آگاہ کرتا رہتا ہے، رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ دنوں ایرانی صدر کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان حسن کاظمی نے افغان ڈپٹی وزیر اعظم ملک عبدالقدیر سے ملاقات کی جس میں افغانستان نے اپنی سرزمین دیگر ممالک کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقینی دہانی کرائی تھی، مگر افغان عبوری حکومت بننے کے بعد پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں اور حملوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ بہت سے حالات و واقعات ہیں، فساد افغانستان کو جہاد افغانستان کا نام دینے والوں کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہوئی ہیں، سادہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، سرائیکی وسیب میں آکر دیکھئے کہ مدارس کے طلبہ کو اس قدر قربانی کا بکرا بنایا گیا کہ وسیب کا کوئی علاقہ ایسا خالی نہیں جہاں جہاد افغانستان کے نام پر مدارس کے نوجوانوں کی میتیں نہ آئی ہوں، یہ بہت بڑی سازش تھی، جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ بے نقاب ہو رہی ہے، ایک سابق امریکی خاتون وزیر خارجہ کا ساڑھے چار منٹ کا ایک ویڈیو کلپ سازشوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں’’ہم ویتنام میں جنگ ہار چکے تھے، ہمارے فوجیوں کے حوصلے پست تھے مگر ہم نے سوویت یونین کو سبق سکھانا تھا سو ہم نے ایشیا کے مسلمان نوجوانوں کا کندھا استعمال کیا۔ انسانیت کی فلاح کا دعویٰ کرنے والوں نے انسانیت کی تباہی کیلئے مہلک ہتھیار استعمال کئے، ظاہر ہے جنگ ہو گی تو اسلحہ بکے گا، سو اس جنگ میں مغربی منڈیوں کا اسلحہ بکا، احتیاط سے کام لیا گیا کہ جنگ صرف ایران اور عراق تک محدود رہے تاکہ فرقہ واریت کی آڑ میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے مروایا جائے۔ یہ سب کچھ مسلمانوں کے سامنے ہو رہاتھا، کیا اُن کو عقل نہیں آئی؟ یہ بھی دیکھئے کہ جنگ دو ملکوں تک رہی مگر جب پابندیوں میں جکڑا ہوا ایران کھڑا رہا تو پھر ایک اور سازش کی گئی، اس نئی سازش کے تحت دیگر اسلامی ملکوں میں فرقہ واریت کی آگ کو پھیلایا گیا۔ ایران، عراق جنگ کے باعث مغرب کو خاطر خواہ نتائج نہ ملے تو ایران، عراق جنگ کو بند کروا دیا گیا۔ اس کے بعد مغربی دنیا نے سوچا کہ اب کہاں سے کمایا جائے؟ ایران، عراق، کویت کے بعد لیبیا یہ سب جنگیں ترقی پذیر ملکوں کی تباہی کیلئے تیار ہوئیں، اب کچھ کہتے ہیں کہ امریکہ کو افغانستان سے بھگا دیا، یہ سب جھوٹ ہے، موجودہ حکمران امریکی ہیں، امریکہ ہی ان کو لے آیا اور جو اسلحہ چھوڑا وہ بھول کر نہیں بلکہ جان بوجھ کر چھوڑ گیا ہے جو کہ اب پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، اگر عقل ہو تو سمجھنے کیلئے اتنا کافی ہے۔