پاکستان2024 کے آغاز میں عام انتخابات کی جانب بڑھ رہا ہے۔ 8فروری 2024کو پاکستان میں عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کی تاریخ کے آنے کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے اور اس کا پہلا نتیجہ پاکستان مسلم لیگ نواز اور ایم کیو ایم پاکستان کے نئے سیاسی اتحاد کی شکل میں آیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ نواز آنے والے الیکشن میں مہاجر قومی موومنٹ پاکستان کے ساتھ مل کر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے گی اور الیکشن لڑے گی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر کا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ الیکشن اتحاد بنا سکتی ہے بشمول پاکستان تحریک انصاف۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کس کے ساتھ سیاسی اتحاد بناتی ہے۔ صوبہ سندھ میں پاکستان مسلم لیگ نواز مہاجر قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا انتخابی اتحاد متوقع ہے اور امکان ہے کہ یہ جماعتیں مل کر پیپلز پارٹی کے خلاف اپنے امیدوارکھڑاکریں گے جبکہ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں کس پارٹی کے ساتھ اپنا سیاسی اتحاد بنا سکتی ہے سندھ میں ایک اور جماعت جمعیت علماء اسلام فضل الرحمن گروپ بھی ایک موثر سیاسی قوت ہے۔تحریک لبیک کے بارے میں یہی تاثر ہے کہ وہ الیکشن اکیلے لڑے گی اور وہ کسی کے ساتھ سیاسی اتحاد نہیں بنائے گی۔ خیبر پختون خواہ میں بڑی دلچسپ صورتحال ہوگی ا،لیکشن کے حوالے سے وہاں پہ پہلے پاکستان مسلم لیگ نواز مولانا فضل الرحمن عوامی نیشنل پارٹی سب نے مل کر پاکستان تحریک انصاف کے خلاف الیکشن لڑا تھا۔اب آنے والے الیکشن میں دیکھتے ہیں کہ کون کون سی جماعت کس کے ساتھ اتحاد کر سکتی ہے اور کون سی پارٹیاں یہاں پہ الگ الگ الیکشن لڑیں گی ۔خیبر پختون خواہ میں اس وقت پاکستان تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ نواز پاکستان پیپلز پارٹی نیشنل عوامی پارٹی جماعت اسلامی اور پرویز خٹک کا گروپ نمایاں سیاسی قوتیں ہیں۔ اب یہاں پہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کس جماعت کے ساتھ اتحاد کرتی ہے یہاں پہ مولانا فضل الرحمن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا اتحاد متوقع ہو سکتا ہے اورپیپلزپارٹی کے ساتھ نیشنل عوامی پارٹی بھی انتخابی اتحاد بنا سکتی ہے۔ جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن گروپ کے درمیان بھی انتخابی مفاہمت ہو سکتی ہے پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی یہاں پہ انتخابی اتحاد بنا سکتے ہیں۔ خیبر پختون خواہ وہ صوبہ ہے جہاں سب سے زیادہ سیاسی اتحاد بننے کے امکانات ہو سکتے ہیں اور یہاں یہ بھی ممکن ہے کہ نیشنل عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف اکٹھے الیکشن لڑیں۔ جہاں تک پنجاب کی صورتحال ہے یہاں پہ پاکستان مسلم لیگ نواز پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی یعنی جہانگیر ترین گروپ بڑی قوتیں ہیں اس کے علاوہ تحریک لبیک کا ووٹ بھی تقریبا ہر حلقے میں موجود ہے۔ پنجاب میں اب جماعت اسلامی کوئی بڑی سیاسی پارٹی نہیں رہی۔ اب پیپلز پارٹی اس بات کا شکوہ کرتی نظر اتی ہے کہ نگران حکومت کا جھکاؤ پاکستان مسلم لیگ نواز کی طرف زیادہ ہے تو ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں پنجاب میں خاص طور پہ جنوبی پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان انتخابی اتحاد وجود میں آ جائے کیونکہ پنجاب میں اس وقت جو صورتحال نظر آرہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز حکومتی پارٹی ہے اور باقی سب پارٹیاں یہاں پہ اپوزیشن کی پارٹیاں ہیں تو یہاں پہ مقابلہ جو ہے پاکستان مسلم لیگ نواز اور دیگر جماعتوں کے درمیان ہوگا۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی سے اب تک اقتدار میں ہے اور بظاہر ابھی اس کی اقتدار کو کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے سندھ میں کوئی خطرہ صرف اس صورت میں وجود میں آ سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پاکستان مسلم لیگ نواز ایم کیو ایم گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس یہ سب مل کے ایک پلیٹ فارم سے الیکشن لڑیں تو پاکستان پیپلز پارٹی کے لیے کچھ مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اب شہری علاقوں میں مقابلہ ایم کیو ایم پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کے درمیان ہوگا جبکہ رورل سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کچھ حلقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے۔ جہاں تک بلوچستان کی صورتحال ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہاجا سکتا کہ وہاں پہ کون کون سے سیاسی اتحاد وجود میں آ سکتے ہیں، البتہ باپ پارٹی کے جسے بلوچستان عوامی پارٹی کہتے ہیں اس بار بھی الیکشن میں اچھی کارکردگی دکھانے کے امکانات ہیں۔ جمیعت علمائ￿ اسلام اور مینگل گروپ بھی اچھی کارکردگی دکھا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں جو بھی صوبائی حکومت بنے گی وہ مخلوط حکومت بنے گی۔ کسی بھی سیاسی پارٹی میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ بلوچستان میں ایک حکومت بنا سکے جبکہ پاکستان کے دوسرے تین صوبوں میں صورتحال مختلف ہے۔ خیبر پختون خوا میں بھی ایک پارٹی حکومت بنا سکتی ہے اور سندھ میں ایک ہی پارٹی کی حکومت چلی آ رہی ہے اور پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ نواز اپنا کھویا ہوا اقتدار دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔تو آنے والے دنوں میں پاکستانی سیاست میں بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے اور پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بہت سے نئے چہرے الیکشن کے لیے اتریں گے کیونکہ پرانے لوگ کی اکثریت پارٹی چھوڑ چکی ہے۔پاکستان مسلم لیگ اپنے پرانے تجربہ کار امیدواروں پہ بھروسہ کرے گی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی کافی حلقوں میں نئے امیدوار ڈھونڈنے پڑیں گے کیونکہ جو پہلے امیدوار تھے وہ بہت زیادہ دوسری پارٹیوں میں جا چکے ہیں۔ابھی تک صورتحال بہت واضح نہیں ہے کہ اس بار الیکشن میں کون کون لوگ ہونگے اور کون لوگ اس ریس شروع ہونے سے پہلے ریس سے باہر ہونگے۔ ایک پیشگوئی ہو سکتی ہے اگر الیکشن 1970کی طرح شفاف اور غیر جانبدار ہوئے تو اس بار بہت سے چہرے نئے ہونگے اور بہت سے پرانے برج الٹ جائینگے۔ یہ 2013کے بعد پہلا موقع ہو گا جب جناب نواز شریف پاکستان مسلم لیگ کی الیکشن مہم کی قیادت کرینگے۔ یہ الیکشن بھی بستی بستی ، گائوں گاؤں اور گلی محلہ کے علاوہ سوشل میڈیا پر زیادہ لڑا جائے گا۔