کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا دنیا کی دکان سے کاسۂ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور تک جاتے مگر اے جمال یار تونے راستے میں دھر لیا کبھی اداسی در آتی ہے تو طبیعت میں گرانی آنے لگتی ہے ایک خیال آکوپس کی طرف جسم و جاں کو جکڑنے لگتا ہے۔یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم کوئی رہنما ساعت کو قبول نہیں کرتے اور پھر نہ ہاتھ باگ پر ہوتا ہے اور نہ پائوں رکاب میں ایسے ہی جیسے خزاں موسم میں سوکھے پات ہوا کے دوش پر اپنی منزل سے بے خبر ہوتے ہیں احمد مشاق یاد آ گئے: فٹ پاتھ کی دیوار سے چپکے ہوئے پتے کل رات درختوں پر ہوائوں سے ملے تھے خیر دنیا فانی اور فنا کی بھی اپنی مرضی ہوتی ہے کی وہ فانی کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے کچھ بھی تو اپنے بس میں نہیں لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے۔اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی جوشی چلے پھر کبھی کبھی تو احسان جاں گزیں ہوتا ہے زبان پر اظہار آ جاتا ہے ایک ہچکی میں دوسری دنیا سعد اتنی سی بات ساری ہے باعث تحریر۔ یقینا ترکی اور شام کے زلزلے کی ہولناکیاں تھیں کہ کس طرح بلند و بالا عمارتیں زمین بوس ہو رہی تھیں وہ تو منظر ہے کہ جب بہار روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے سب کچھ ہماری داش میں آنے والی بات ہے کہ ایک کشش ثقل کے ختم ہو جانے سے ہی سب بے معنی و بے وزن ہو جائیں گے پورے نظام کو بھی تو کسی ان دیکھی کشش نے باندھ رکھا ہے تخیل کہاں کہاں پرواز کرتا ہے مگر کون یہ سب کچھ احاطہ خیال میں لائے۔ اصل میں جمعہ کے روز میں اور میرے دوست ڈاکٹر محمد علی نے فجر کی نماز حسان بن ثابت مسجد میں ادا کی بات کچھ یوں ہے کہ وہاں خوش الحان اور مفسر قرآن حبیب اللہ صاحب جمعہ کے روز خصوصیت کے ساتھ فجر کی نماز میں سورۃ سجدہ تلاوت کرتے ہیں۔ آپ غور کریں تو آیات اپنے پوری معانی کے ساتھ اثر انگریز نظر آتی ہیں خاص خاص آئتوں کو دہرائے جاتے ہیں آپ یقین نہیں کریں گے کہ سورۃ سجدہ کے اہم مقامات پر میں نے اپنے قریب لوگوں کو گریہ کرتے دیکھا ایک کی تو ہچکی بندھی ہوئی تھی یہی خوش قسمت اور چنیدہ لوگ ہیں کہ قرآن سنتے ہی جن کے دل نرم گداز ہو جاتے ہیں وہ جو اللہ کا کلام سن کر جھک جاتے ہیں سجدے میں گر جاتے ہیں اور اللہ کی تسبیح بیان کرتے ہیں۔میرے معزز و محترم قارئین یقینا یہ کالم آپ کو ذرا اور طرح کا لگے گا مگر شاید مفید ضرور ہو آپ بے شک میرے لئے مومن کا شعر دہراتے رہیں کہ: عمر ساری تو کٹی عشق بتاں میں مومن آخری وقت میں کیا خاک مسلمان ہوں گے اب لوٹ کے جانے کے بھی نہیں بس ایسے ہی ہوا کہ سوچتے سوچتے اپنی روٹین سے بے زار و بے قراری ہونے لگی بے لذتی بھی جان لیوا شے ہے۔ کچھ دھیان عاقبت کی طرف کیا تو تہی دستی میں تہی دست ہوں اور بارہا یہ سوچتا ہوں اس طرح لوگ کہاں لوٹ کے گھر جاتے ہیں یہ قرآن کا فیض اور معجزہ ہے کہ غور کرنے والے پر اپنے بازو وا کر دیتا ہے مجھے سمجھنے کا شوق ہوا تو آیات یاد ہونے لگیں۔سورۃ حجرات سورۃ ملک سورہ رحمن سورۃ سجدہ یاد ہو گئیں۔مولانا حبیب اللہ پچھلے جمعہ کو سورۃ یاسین کی اہمیت بیان کی تو ہم نے یہ سورۃ بھی یاد کر لی کسی نے کان میں کہا یہ تو زیادہ تر مردوں پر پڑھنے کے کام آتی ہے اکثر آپ نے بھی سنا ہو گا کہ آخری وقت میں کہتے ہیں سورۃ یاسین پڑھو ہم نے سوچا کہ یہ سورۃ یاسین زندگی میں پڑھیں تو زندگی سمجھ میں آنے لگتی ہے۔ بات میں کر رہا تھا مولانا حبیب اللہ صاحب کی کہ انہوں نے فجر کی نماز کے بعد ان سورتوں کے سے ترکی اور شام کے زلزلوں کو موضوع بنایا اور ہمیں باور کروایا کہ اللہ کی طرف دھیان دیں اور استغفار کریں ہم سب نے مل کر استغفار کیا ۔ اللہ سورۃ سجدہ میں کہتا ہے ہم مجرموں سے انتقام لیں گے اللہ کی اپنی سنت ہے اوروہ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا اپنے اعمال پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے دعا کا بڑا رقت آمیز منظر تھا کہ دعا مومن کی ڈھال ہے انہوں نے کہا کہ ہمیں مالی مدد کے علاوہ دعا بھی کرنی چاہیے بیس ہزار کے قریب ان دو ملکوں میں شہادتیں ہو چکی ہیں شام میں تو کئی پیغمبروں اور صحابہ کی قبریں ہیں بنیادی بات انہوں نے یہی کی کہ اپنے بارے میں بھی سوچنا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں ہمارا طرز زندگی کیسا ہے ہم جانتے ہیں۔ہم تو سود کے ضمن میں خود کو دیکھیں تو ہم اللہ اور اس کے رسولؐ کے ساتھ برسرپیکار ہیں ہم وہاں سے اشکوں سے بھری آنکھیں لے کر اٹھے۔ ابھی میں نے بے ثباتی پر کالم ختم نہیں کیا تھا کہ ایک دوست کا فون آ گیا کہ ہمارے محبوب شاعر امجد اسلام امجد ہم میں نہیں رہے دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا وہ ہمارا مان تھے یقینا میں ان پر مکمل کالم لکھوں گا ان کی مہربانیاں ہمارے شامل حال رہیں کچھ عرصہ قبل وہ میرے بیٹے عمیر بن سعد کے ولیمے پر آئے وہ ہماری محفلوں کی جان اور مان تھے ہر فیلڈ میں وہ کامیاب و کامران رہے انسانی اقدار و روایات کے امین خوف خدا اور حبِ رسولؐ میں بھیگے ہوئے دوسروں کا خیال رکھنے والے فکر مند انسان: دل کے دریا کو کسی روز اترجانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے وہ بہت بھرپور آدمی تھے تدریس سے وابستہ رہے اس کے بعد کئی اور عہدوں پررہے اردو سائنس بورڈ کے چیئرمین بھی رہے سب سے بڑھ کر وہ نوجوان نسل کا رومان تھے ان کی محبت بھری مسکراہٹ قہقہے اور پیار سے بھری روشن آنکھیں کسے بھولیں گی ۔عطاء الحق قاسمی کی ان کے ساتھ جوڑی رہی امجد اسلام امجد انسان کے قدر دن تھے ایک لحاظ ان کے رویے میں تھا وہ اردو ادب کا ایک درخشندہ کردار تھے اور رہیں گے: تجھ کو کس پھول کا کفن ہم دیں تو جدا ایسے موسموں میں ہوا جب درختوں کے ہاتھ خالی ہیں آ تجھے تیرے سبز لفظوں میں دفن کر دیں کہ تیرے فن جیسی دہر میں کوئی نوبہار نہیں