28مئی، 1998کو بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی پریس گیلری سے میں 11اور 13مئی کو راجستھان کے پوکھران میں کئے گئے جوہری دھماکوں پر جاری بحث کورکر رہا تھا۔ بحث کی شروعات میں اس دن صبح وزیر داخلہ لال کشن چند ایڈوانی نے کہا تھا کہ ایٹمی تجربوں نے خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے پلڑے میں ڈال دیا ہے اور ایک نئے موافق تزویراتی حالات پیدا ہو گئے ہیں۔ اس سے قبل پارلیمانی امور کے وزیر نے پاکستان کا نا م لیکر کہا کہ بھارت دوہاتھ کرنے کیلئے اب تیار ہے اور پاکستانی حکمرانو ں کو للکارتے ہوئے کہا کہ وہ مقام اور وقت کا انتخاب کریں۔ اس گرما گرم بحث کے دوران مجھے یا د ہے کہ دوپہر چار بجے کے آس پاس اپوزیشن لیڈر نٹور سنگھ ایوان میں داخل ہوئے اور اگلی صف میں اپنی پارٹی کانگریس کے لیڈران کے ساتھ کانا پھوسی کرنے لگے۔ ایوان میں کانگریس کے لیڈر شرد پوار اپنی نشت سے اٹھ کر اسپیکر کے پاس گئے اور ان کے کان میں کچھ بتایا، جس کے بعد اسپیکر نے تقریر کررہے ایک ممبر کو چند لمحے بیٹھنے کیلئے کہا اور نٹور سنگھ کو فلور دے دیا۔ نٹور سنگھ جو بھارت کے سابق خارجہ سیکرٹری اور پاکستان میں ہائی کمشنر بھی رہ چکے تھے ، نے کہا ان کو ایسی اطلاع ملی ہے کہ پاکستان نے چند لمحے قبل بلوچستان کے چاغی پہاڑوں میں ایٹمی دھماکہ کر دیا ہے۔ پورے ایوا ن پر سکتہ سا چھا گیا۔ صبح سے جو گرما گرم بحث جاری تھی، اس پر جیسے ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔ مگر چند منٹوں کے بعد ہی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین نے کھڑے ہوکر نٹور سنگھ کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران اسپیکر نے شاید آدھے گھنٹے تک ایوان کی کارروائی روکنے کا اعلان کردیا۔ جب ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی، تو وزیر دفاع جارج فرنانڈس نے اعتراف کیا کہ بھارتی وقت کے مطابق تین بجکر 46منٹ پر بھارت کے زلزلہ پیما آلات اور اداروں نے بھونچال کے جھٹکے ریکارڈ کئے، جن کے ماخذ پاکستان کی چاغی کی پہاڑیا ں تھیں۔ اگلے روز انہوں نے تفصیلی بیان میں بتایا کہ مختلف جگہوں پر موجود آبزرویشن سینٹروں نے تصدیق کی ہے کہ زلزلہ کے یہ جھٹکے زیر زمین جوہری بم کے دھماکوں کی وجہ سے آئے تھے اور ان کی انرجی 10کلو ٹن ٹی این ٹی دھماکہ خیز مواد کے برابر تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تجربات ایک سے زیادہ تھے اور دیگر تجربات کم نوعیت کے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہماری حکومت نے اس کا پہلے سے ہی اندازہ لگایا تھا اور ہماری دفاعی پلاننگ اور اسٹریجی میں اس کو فیکٹر میں لایا گیا تھا۔ مگر یہ افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان نے ان تجربات کو بھارت کے ساتھ نتھی کردیا ہے۔‘‘چونکہ 10اکتوبر کو پاکستان کے نیوکلیر پروگرام کے خالق عبدالقدیر خان کا انتقال ہو گیا، لوک سبھا میں اس وقت کی کارروائی کو ریکارڈ میں لانا ضروری ہو گیا تھا۔ اگست 2015کو مرحوم شجاعت بخاری کے قیادت میں جب 10کشمیری صحافیوں کا ایک وفد اسلام آباد اور مظفر آباد کے دورے پر تھا، تو میں بھی دہلی سے ان کے ہمراہ تھا۔ لاہور کے گھریلو ہوا ٹرمینل پر پہنچ کر معلوم ہو اکہ اسلام آباد کی فلائٹ چار گھنٹے لیٹ تھی۔ ٹرمینل کے وسیع و عریض ویٹنگ روم انتظا ر کی کوفت بھگت ہی رہے تھے کہ ہال میں ڈاکٹرعبدالقدیر خان ، چند افراد کے ہمراہ نمودار ہوئے اور دور ایک کونے میں صوفے پر براجمان ہوگئے۔ اس دوران کئی افراد ان کے پاس جاکر ان سے علیک سلیک کررہے تھے اور چند افراد ان سے تصویر بنانے کی گذارش کرتے تھے اور وہ ان کی درخواست کی تعمیل کر کے پوز بھی دے رہے تھے۔ ہم دور سے ہی ا ن کے معمولات دیکھ رہے تھے۔ ہمارے وفد میں اکثریت نوجوان صحافیوں کی تھی، عبدالقدیر خان جیسی اہم شخصیت کو اتنا قریب دیکھ کر ان کی رگ پھڑک رہی تھی۔ وہ بار بار شجاعت کی طرف دیکھ کر جیسے اجازت طلب کر رہے تھے۔ میں انکو اپنا واقعہ سنا رہا تھا۔ جب فروری 2001کو لاہور کے نوائے وقت کے دفتر میں مجید نظامی سے ملاقات کے بعد میں ان کے دست راست منیر احمد کے ہمراہ سیڑھیوں سے اتر رہا تھا کہ دیکھا کہ پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم عمران خان اوپر آرہے تھے۔ انہوں نے رک کر منیر سے علیک سلیک کی ، جس نے میرا تعارف کرایا۔ چند سیکنڈ رک کر انہوں نے خبر و خیریت دریافت کی اور چلے گئے۔ اسی سال جب مجھے گرفتار کرکے تہاڑ جیل بھیجا گیا، تو ایک روز ایک ہندی اخبار نے نمک مرچ لگا کر عمران خان کے ساتھ میری ملاقات کی ایسی تفصیل چھاپ دی، جو مجھے خود پتہ نہیں تھی۔ بس جیل کنٹرول روم سے بلاوا آگیا اور الٹا لٹکا کر اس ملاقات کے حوالے سے ڈنڈوں سے پٹائی کی گئی۔ میری اس کہانی کے باوجود جب چند صحافیوں کی بے قراری میں کمی نہیں ہوئی، تو شجاعت نے اجازت دی کہ بس علیک سلیک کے بعد واپس آجائیں۔ مگر جب وہ عبدالقدیر خان صاحب کے پاس پہنچے، تو ان کی سکیورٹی پر مامور افراد نے ان کو پاس نہیں آنے دیا، جبکہ اس دوران و ہ دیگر افراد کو آرام سے ڈاکٹر صاحب کے پاس جانے دے رہے تھے۔ اس بحث و مباحثہ نے ڈاکٹر صاحب کی توجہ مبذول کی اور کھڑے ہوکر وہ خود ہی ان کے پاس آئے۔ جب انہوں نے سنا کہ وہ سری نگر سے آئے ہیں، تو انہوں نے ان کو صوفے پر بٹھایا۔ وہ ان کے ساتھ تصویریں بنا ئیں اور باتیں کیں۔ اسی دوران انہوں نے ہماری طرف اشارہ کرکے ان کو شاید ہمارے بارے میں کچھ پوچھا۔چند لمحوں کے بعد وہ خود چل کر ہمارے پاس آگئے۔ خبر و خیریت اور تعارف کے بعد سکیورٹی والے ان کو واپس اپنے کو نے کی طرف لے گئے۔ جب فلائٹ کا اعلان ہو رہا تھا ، تو وہ دوبارہ ہمارے پاس آئے اور تاکید کی کہ جو تصویریں ہمارے وفد نے ان کے ساتھ لیں ہیں ان کو ڈیلیٹ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت واپس جاکر ان تصویروں کی وجہ سے پریشانی ہوسکتی ہے۔ چونکہ ہماری فلائٹ ایک ہی تھی، اسلام آباد ائیر پورٹ پر انہوں نے دوبارہ تصویریں ڈیلیٹ کرنے کی ہدایت کی اور ڈھیر ساری دعائوں کے ساتھ ہم سے وداع ہوگئے۔ ایک ایسے مصروف شخص کا ہماری حفاظت کا اتنا خیال ، واقعی ان کی ہی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا تھا۔ بھارت کے سابق صدر اور سائنسدان ڈاکٹرعبدالکلام کا چند روز قبل ہی انتقال ہو گیا تھا۔ لاہورائیر پورٹ پر چند منٹوں کے معانقہ کے دوران ،میں نے ان سے کہا کہ میں نے بطور صحافی اے پی جے عبدالکلام کو بطور سائنسی مشیر اور بعد میں بطور صدر کور کیا ہے۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا واقعی عبدالکلام کا بھارت کے نیوکلیر پروگرام میں کوئی رول تھا؟ مجھے لگا کہ شاید پروفیشنل رقابت کی وجہ سے وہ اے پی جے عبدالکلام سے خائف تھے۔(جاری ہے)