25 جولائی الیکشن کی شام ووٹوں کی گنتی کا نظام بیٹھنے کی دوسری سالگرہ گزشتہ روز دھوم دھام سے منائی گئی۔ سرکاری تقریبات جس کے موقع پر وفاقی وزیر اسد عمر کی اس لرزہ خیز دھمکی نے عوام کے رہے سہے ہوش بھی گم کردیئے کہ ترقی کا سفر مزید تیز کیا جائے گا۔ ترقی کے دو سالہ سفر نے عوام کا سانس لینا بھی مشکل کردیا ہے۔ اسے تیز کرنے کا مطلب ہے کہ سانس سرے سے بند کردیا جائے گا۔ نہ رہے گا سانس‘ نہ ہوگی پھانس۔ اسد عمر بہرحال امریکہ سے بہتر ہیں۔ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم مارا تھا تو پیشگی دھمکی نہیں دی تھی‘ اسد عمر نے کم از کم خبردار تو کردیا۔ ٭٭٭٭٭ اس نظام کو جسے آر ٹی سسٹم بھی کہا جاتا ہے‘ بٹھانا اس لیے بھی ضروری تھا کہ یہ نہ بیٹھتا تو ملک کا بھٹہ کیسے بیٹھتا جو دو برسوں میں خاطر خواہ سے بھی زیادہ تشریف فرما گیا ہے۔ پی ٹی آئی تبھی آئی جب یہ سسٹم بیٹھا۔ اس سے پہلے کے کئی مہینوں میں پی ٹی آئی کولانے کے لیے سرمایہ کاری ہوئی لیکن الیکشن کی شام پتہ چلا کہ ’’کچھ نہ دوا نے کام کیا۔‘‘ یہ تشویشناک اطلاع ملی کہ حریف 120 سے بھی زیادہ سیٹوں پر جیت رہا ہے۔ چنانچہ ایمرجنسی پلان کے تحت صادق و امین کی فتح برآمد کی گئی۔ خبر تو یہ بھی تھی کہ پنجاب میں دشمن کلین سویپ کررہا ہے‘ چنانچہ اسے کلین بولڈ کرنے کا ایک ہی طریقہ تھا جو خدا کے فضل سے کامیابی کے ساتھ بروئے کار لایا گیا۔ کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا‘ بس ملک کی تاریخ میں پہلی بار انتخابی نتائج دوسرے بلکہ تیسرے روز تک بھی آتے رہے۔ صادق و امین کی جماعت جیت گئی‘ خود صادق و امین بھی‘ یہاں تک کہ سعد رفیق کے حلقے سے بھی انہی کی جیت برآمد ہوئی۔ جب دونوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ ہوا اور الیکشن کمشن مان گیا تو صادق امین میاں عدالت سے سٹے لے آئے۔ ٭٭٭٭٭ جولائی کے بعد اگست آیا اور اگست کے بعد لمبی کمائیوں کا دور شروع ہوا ۔ صادق و امین کی کوئی اور بات آپ مانیں یا نہ مانیں‘ یہ ماننا پڑے گا کہ آپ نظریاتی آدمی ہیں‘ آپ کا ایک نظریہ ہے اور اس نظریے سے آپ کے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ نظریہ کیا ہے‘ دو سال کے دوران ناواقف حضرات بھی واقف ہو چکے ہیں۔ مختصراً اسے پاکستانی پنج شیلا کہا جا سکتا ہے یعنی پانچ اصولی نظریہ۔ مثلاً اصول جو سب سے زیادہ نافذ ہوا ہے یا کیا گیا ہے‘ اس کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔ آٹے‘ چینی‘ پٹرول کی قیمتوں میں اربوں ڈالر کے ’’ثواب‘‘ سے بات واضح ہو جاتی ہے اور ہاں‘ اس میں دوائوں کی قیمتوں کا باب بھی شامل کرلیجئے۔ اور چاہے تو سراج الحق کے آج ہی دیئے گئے بیان کو بھی شامل کرلیں کہ حکومت کورونا متاثرین کے لیے آنے والی 12کھرب کی امداد کا حساب دے‘ وہ کہاں گئی۔ ارے میاں‘ 12 کھرب روپے کدھر گئے ہوں گے‘ تکیہ کے نیچے رکھ کر بھول گئے ہوں گے۔ آپ کو 12 کھرب روپے کے غائب ہونے کی پروا ہے‘ یہاں کھربوں ڈالر کے نئے قرضے آئے اور کسی کو نہیں پتہ کہ کدھر گئے۔ کل آپ پوچھیں گے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کو دی جانے والی اربوں روپے کی سبسڈی کدھر گئی۔ بھئی جدھر بھی گئی‘ حکومت ایماندار تو ہے ناں۔ ایماندار حکومت ہونے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اربوں ڈالر غائب ہوں یا کھربوں‘ کوئی ادارہ سوال نہیں اٹھاتا‘ اس لیے کہ اسے پتہ ہے حکومت ایماندار ہے۔ رقم بس یونہی ادھر ادھر ہوئی ہوگی۔ ہاں سراج الحق اور ان جیسے اکا دکا افراد ازراہ نادانی یہ سوال اٹھا دیا کرتے ہیں تو کوئی بڑی بات نہیں۔ ان جیسے تو یہ بھی پوچھ لیں گے کہ کراچی میں 25 ارب روپے کا تحفہ سرکار نے کس حساب میں دیا۔ ارے میاں‘ پرانا دوست ہے‘ دوست نوازی بھی کوئی شے ہوتی ہے کہ نہیں؟ ٭٭٭٭٭ ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ عوام کی اکثریت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے حکومت نے احساس پروگرام کا نام دے دیا ہے‘ سخت ناراض ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ پروگرام کے تحت رقم غریبوں کو نہیں پہنچی‘ کہیں اور چلی جاتی ہے۔ یہ کہیں اور کدھر ہے؟ جب تک اس کی وضاحت نہیں ہو جاتی‘ عوام کے شکوے کو وزن نہیں دیا جاسکتا۔ سروے کرنے والے ادارے ایماندار حکومت کے بارے میں اس قسم کی سروے رپورٹوں سے گریز کریں۔ ٭٭٭٭٭ ایوان کو شہری ہوا بازی کے پارلیمانی سیکرٹری نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ دالبندین (بلوچستان) سے چینی انجینئر اور عملہ واپس چلا گیا ہے‘ منصوبوں پر کام ٹھپ ہو چکا ہے اور دالبندین کے لیے پروازیں بھی بند ہو گئی ہیں۔ یعنی ’’سی پیک‘‘ پر کام زور شور سے جاری ہو چکا ہے۔ واضح ہو گا کہ 2014ء کے دھرنوں اور 25 جولائی کو سسٹم بٹھانے کا ایک بڑا ہدف ’’سی پیک‘‘ بھی تھا۔ مبارک ہو۔ سسٹم بٹھانے کی دوسری سالگرہ کا جشن بھی مبارک۔ سرکار معمول کے مطابق روزانہ چند درجن ڈشوں کے ساتھ ایک ثابت ہرن بھی نوش فرماتے ہیں‘ بھنا ہوا۔ پوچھنا یہ تھا کہ جشن پر انہوں نے حسب معمول ایک ہی ہرن تناول فرمایا یا دو؟۔ بھنے ہوئے!