میری زندگی کے پہلے بیس سال ایک چھوٹے سے گاؤں میں مالی عُسرت اور ذہنی عشرت میں گزرے۔ ایک بات اکثر دیکھنے میں آئی کہ گاؤں میں جب بھی کسی کی گائے، بھینس یا بَیل کسی بیماری یا عمر رسیدگی کی بنا پر مر جاتا تو ساتھ والے گاؤں سے کھالوں کا کاروبار کرنے والے اسلم موچی کو بلایا جاتا جو اپنے کسی عزیز اور تیز چھریوں کے ہمراہ پہلی فرصت میں آ دھمکتے اور مردہ جانور کی کھال اتار کے لے جاتے۔(اب تو سنا ہے کہ ایسی کسی صورت میں کھال کے بیوپاری وسیع تر مقاصد کے لیے پورا مردہ جانور ڈالے میں ڈال کے لے جاتے ہیں۔)بقیہ جانور کو جوں ہی بیلوں کی جوڑی کی مدد سے گاؤں سے باہر خالی جگہ منتقل کیا جاتا تو دیکھتے ہی دیکھتے آسمان سے چِیلوں کا ایک گروہ (پنجابی میں ہم چِیل کو اِل کہتے، شاید اسی رعایت سے درختوں پہ چڑھ کے کسی کے پاؤں کو پاؤں سے چھُونے کے ایک کھیل کو اِل کانگڑہ بھی کہا جاتا) نمودار ہوتا اور قطار اندر قطار بڑے بڑے پروں، لمبی گردنوں، نوکیلی چونچوں کے ساتھ چکر کاٹتا گوشت اور ہڈیوں کے اُس ڈھیر پر لینڈ ہو جاتا۔ہم بچوں کے لیے یہ سارا عمل ایک کھیل کا سا ہوتا۔جگہ اور گوشت محدود ہونے کی بنا پر وہ ایک دوسرے سے یوں لڑتے جھگڑتے، دھکیلتے، پچھاڑتے جیسے گوشت پر جھپٹنے کے عمل میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی کوشش میں ہوں لیکن پیٹ بھرنے کے بعد شانت ہو کر بیٹھ جاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں ہڈیوں کا ایک حسرت بھرا ڈھانچا پڑا رہ جاتا۔ پیٹ بھری چِیلیں کچھ دن اِدھر اُدھر بڑے درختوں، اونچے ٹیلوں پہ کبھی اونگھتی، کبھی چہلیں کرتی دکھائی دیتیں اور جانے کب دُور دیس ٹھکانوں کی جانب لَوٹ جاتیں۔ گزشتہ دنوں جناب مستنصر حسین تارڑ کے بچپن کے ایسے ہی ایک تجربے کے حوالے سے ایک تحریر ’احمو کمہار کا گھوڑا‘ نظر سے گزری، جس میں انھوں نے اپنے ننھیال گکھڑ منڈی کی بچپن کی ایک یاد بیان کی ہے کہ جہاں کسی کمہار نے اپنے مریل سے گھوڑے کو ناکارہ سمجھ کے چھوڑ دیا، جو ایک دن نقاہت کے سبب گر پڑا اور اس پر گِدھوں کا ایک غول جھپٹ پڑا۔ تارڑ صاحب کا بیان کردہ واقعہ زیادہ تکلیف دہ اس لیے ہے کہ: ’’احمو کمہار کا گھوڑا ابھی زندہ تھا، اٹھنے کی کوشش کرتا ، پھر ڈھیر ہو جاتا، گِدھ اس زندہ گھوڑے کی بوٹیاں نوچ رہے تھے۔ وہ نہایت منظم تھے، باری باری آگے بڑھ کر اپنا حصہ نوچتے تھے۔ ایک گِدھ اپنی باری پر چونچ اس کے اندر گھسیڑ کر اپنا حصہ نوچ کر خون سے رنگی گردن باہر نکال لیتا… انھوں نے مشترکہ طور پر طے کر رکھا تھا کہ اس گھوڑے کو صلح صفائی سے کھانا اور نگلنا ہے۔ جب تک پچھلا گوشت حلق سے اتار کر ہضم کریں گے، تب تک پھر سے باری آ جائے گی۔ جب کبھی احمو کمہار کے گھوڑے کے اندر داخل ہو چکی چونچ اس کا ماس ادھیڑتی تو وہ بے طرح تڑپتا، ایک مُردنی سی اس کی آنکھوں میں اتر رہی تھی… مجھے وہاں سے بھاگ جانا چاہیے تھا لیکن مجھے طیش آ گیا، مَیں اپنے تئیں چھوٹی سی تختی سے گِدھوں پر حملہ کر دیا…‘‘ اس کے بعد وہ سوال کرتے ہیں کہ: ’’آج بھی کوئی ایسا گھوڑا ہے جو بظاہر ٹھیک لگتا ہے لیکن گِدھ اس کے اندر کا نصف ماس نوچ چکے ہیں۔ گھوڑا ابھی زندہ ہے لیکن کوئی نہیں جو اس کی مدد کو پہنچے۔ کم از کم ایک چھوٹی سی تختی ہی سے ان پر حملہ کر دے!!!‘‘ تارڑ صاحب کی مثال حسبِ حال ہے۔ علامت بھی کوئی ایسی گہری نہیں کہ تشریح و تعبیر کی ضرورت پڑے لیکن جس سانحے کی طرف اشارہ ہے، وہ کوئی مردہ جانور ہوتا، چلو نیم مردہ گھوڑا بھی ہوتا تو شاید کسی طرح برداشت ہو جاتا، لیکن یہاں تو کہانی نیم زندہ معاشرے، وینٹی لیٹر پہ دھری معیشت اور تقریباًمُردہ اخلاقیات کی ہے۔ پوری دنیا میں روزمرہ کھانے پینے کی چیزیں عام آدمی کی دسترس میں رکھی جاتی ہیں لیکن یہاں آٹا، چاول، دال، گھی وغیرہ جیسی بنیادی ضرورت کی اشیاء بھی غریب آدمی کے بس سے باہر پڑی ہیں۔ حساس دل گریہ کناں ہیں کہ: گِدھ ہی گِدھ ہیں مِری زمینوں پر عرق پھر بھی نہیں جبینوں پر دوسری طرف بے حِس حکمرانوں کے اللے تللے ہی ختم ہونے میں نہیں آ تے۔ایک دوسرے کو ساس نندوں والے طعنوں ہی سے فرصت نہیں ملتی۔جو بھی آتا ہے ملک کو پیرس،لندن بنانے کے وعدے کرتا ہے۔کسی نے اسے پاکستان بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ بھوکے عوام کو ہم نے چھہتر سال بعد بھی جھنڈوں، ڈنڈوں کے دھیانے لگایا ہوا ہے۔ کروڑوںکے جھنڈے، اربوں کی جھنڈیاں بنا رہے ہیں۔ ہمیں اتنا بھی شعور نہیں آ سکا کہ جشن تو اُن قوموں کا حق ہوتا ہے، جو اپنے مسائل سے پوری طرح نبرد آزما ہو چکے ہوں یا کم از کم ترقی کی دوڑ میںقابلِ ذکر اقوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہوں۔ ہمارا شمار تو دنیا میں انصاف، تعلیم کے آخری درجے اور جھوٹوںکے ہراول دستے میں کیا جا رہا ہے۔ میڈیا پہ روز کروڑوں کے جھوٹے اشتہارات آتے ہیں، اربوں کے ہیلی کاپٹر خریدے جا رہے ہیں۔ یہاں تو کرپشن کے سبب ملک کے ہر ادارے، محکمے کا حال اس مریض کا سا ہو چکا ہے جسے دیکھتے ہی ڈاکٹر چِلّا کے کہتا ہے: ’’اینے نئیں جے بچنا، اینوں لہور لَے جاؤ‘‘ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جس ملک میں کروڑوں لوگ غربت کی سطح سے نیچے جینے پر مجبور ہوں، وہاں ایک سال میں پانچ سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے۔ قوم کے درد میںمگرمچھ کے آنسو بہانے والے وزراء کی فوج ڈفر موج اور پروٹوکول پہ خرچ ہونے والے اربوں روپے سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ محض سیاست چمکانے کے لیے اربوں کے لیپ ٹاپ تقسیم ہوتے ہیں۔ سرکاری خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کے دن میں کئی کئی بار نانا جی کی کی فاتحہ دلوائی جاتی ہے۔ ایک معروف صحافی نے بتایا ہے کہ برطانیہ جیسی ٹاپ ٹین سٹیٹ فیڈرل گورنمنٹ کے پاس محض چھیاسی سرکاری کاریں ہیں،وہ بھی ان کے سرکاری کار سروس محکمے کے پاس ہیں۔ہمارا ملک جو ڈیفالٹ کے قریب ہے۔ اس کی صرف وفاقی حکومت کے پاس نوے ہزار گاڑیاں ہیں، جن میںسالانہ پندرہ ارب کا پٹرول خرچ ہوتا ہے۔صوبوں کی رُوداد اِس سے بھی خطرناک ہے۔ہمیں فکر ہے تو صرف ایک گھڑی کی،اس گھڑی کے چکر میں قیامت کی گھڑی کو بھی فراموش کیے بیٹھے ہیں۔ ہم بھارت جیسے ہمسائے کیساتھ روز بارڈر پہ ککڑوں کی لڑائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ کبھی سائنس آئی ٹی میں بھی موازنہ کریں۔کاش ہماری سیاست میں ایک کیجری وال ہی پیدا ہو جاتا، جس نے پورے دہلی میں بجلی، پانی، صحت اور بین الاقوامی نوعیت کی تعلیم بالکل مفت کر دی، آگے آپ مدھیہ پردیش فتح کرنے جا رہاہے۔ اس نے بتایا کہ مَیں معجزوں پہ یقین نہیں رکھتا،مَیں نے صرف اتنا کیا کہ سرکاری قسم کی خریداریوں، ٹھیکوں وغیرہ میں سے افسروں، سیاستدانوں کی کمشن، کک بیکس، پرسنٹیج ختم کر دی۔ اس پیسے سے یہ سارا کچھ بآسانی ممکن ہو گیا۔ اس یومِ آزادی پر آخری بات یہ کہ آئیں ہم سب بھی اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ ہم خود بھی کسی سطح پہ گِدھ کا کردار ادا تو نہیں کر رہے۔