گفتگو سے سحر کر دینے والے ڈاکٹر گوہر نوشاہی انتقال کر گئے۔1998 میںابھی اخبار کی نوکری کو چند ماہ ہوئے تھے، اسلام آباد /پنڈی ٹرانسفر ہوا۔ اکادمی ادبیات میں حمید قیصر سے تعارف ہوا۔ ایک روز حمید قیصر کے دفتر میں تھا کہ گوہر صاحب آ گئے۔ وہ اس وقت مقتدرہ قومی زبان میں تھے۔ تعارف میں پہل انہوں نے کی۔ ان کا تعلق شرقپور کے ایک روحانی خانوادے سے تھے۔ اس دن کے بعد ڈاکٹر گوہر نوشاہی کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزرنے لگا۔ ڈاکٹر صاحب سے تعلق میں کئی موڑ آئے لیکن ہر بار یہ تعلق پہلے سے مضبوط ہوا۔ بنیادی طور پر اردو ادب، خود نوشت‘ تاریخ ادب،لسانیات اور لفظیات کے محقق تھے۔ ایم اے اردو کیا تو مجلس ترقی ادب میں ملازمت مل گئی۔ سید عابد علی عابد اور امتیاز علی تاج کے ساتھ کام کا موقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب نے ڈاکٹر وحید قریشی سے تعلیم پائی تھی۔ مجھے دونوں کے ساتھ ایک ہی مجلس میں دو بار بیٹھنے کا موقع ملا۔ گوہر صاحب مقتدرہ سے ریٹائر ہو چکے تھے اور وحید قریشی بیماری سے لڑ رہے تھے۔ لیکن استاد کا ادب اور طالب علم بن کر کسب فیض کیسے حاصل کرتے ہیں گوہر صاحب اس وقت بھی نہ بھولے تھے۔ ڈاکٹر صاحب بتایا کرتے کہ ان کی والدہ توے پر روٹی آج کی عورتوں کی طرح نہیں ڈالتی تھیں بلکہ وہ روٹی کو ہاتھوں میں پیار کرتیں‘ پھر ایسے ہموار طریقے سے توے پر ڈالتیں کہ لگتا توے کو پیار کر رہی ہیں۔ پنجاب میں حقہ سماجی زندگی کا ایک حصہ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب حقہ کی اقسام پر بات کرتے‘ نے پر لپٹے رنگ رنگ کے دھاگوں ‘ نکے‘ نڑی اور نقوش کا ایک ایسا نقشہ باندھتے کہ آدمی خواہ مخواہ حقے کی محبت میں گرفتار ہو جاتا۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی کو تہران یونیورسٹی میں اردو چیئر پر بھیج دیا گیا۔ ان کی پہلی بیگم ڈاکٹر ممتاز گوہر ان کے ساتھ ایک سرحدی قصبے کو دیکھنے گئیں۔ یہ قصبہ غالباً کسی وسط ایشیائی ریاست کے ساتھ واقع تھا۔ بیگم خریداری کرتے کرتے ذرا فاصلے پر چلی گئیں۔ اس دوران ڈاکٹر صاحب نے ایک ویگن دیکھی جو انتہائی خوبصورت خواتین سے بھری تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مقامی لوگوں سے پوچھا یہ ویگن کہاں سے آئی تھی۔ جواب ملا قف قاز‘ ایسی ویگن ہر پون گھنٹے بعد آتی ہے۔ پاکستان میں قف قاز کو کوہ قاف کہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب پرجوش ہو گئے۔ بیگم کو بلایا کہ آئو تمہیں کوہ قاف کی پریاں دکھائوں۔ پون گھنٹہ انتظار کے بعد دوسری ویگن آئی۔ نوعمر اور بزرگ خواتین اتریں۔ سب بے پناہ حسین۔ ڈاکٹر ممتاز مان گئیں کہ کوہ قاف میں پریاں رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے قیام پاکستان کی پچاسویں سالگرہ پر وسط ایشیا،پاکستان اور افغانستان کی زبانوں میں بولے جانے والے ایسے دس ہزار الفاظ کی فہرست فرہنگ مشترک کے نام سے شائع کی جو تمام ممالک میں ایک ہی آواز اور مطلب کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ علمی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے مقتدرہ کی شائع کردہ اس کتاب سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب جب مجلس ترقی ادب میں تھے تو کئی یادگار کام کئے۔ ان میں سے ایک بیتال پچیسی ہے۔ راجہ بکر ماجیت اوربیتال بھوت کی پچیس کہانیوں کو ڈیڑھ سو سال پہلے للولال کوی نے اردو کے قالب میں ڈھالا ،ڈاکٹر صاحب نے ضروری حواشی اور وضاحتوں کے ساتھ دوبارہ ترتیب دیا۔ یہ کہانیاں دو ہزار سال پہلے کے ہندوستان کی عظیم دانش کا ثبوت ہیں۔یہ کتاب قدیم ہندوستان کی ایسی عکاسی کرتی ہے جیسی الف لیلیٰ عرب اور حکایات سعدی ایران کی ۔ ڈاکٹر گوہر نوشاہی کے توسط سے مجھے کئی عظیم محققین اور ادبی شخصیات سے ملنے کا موقع ملا۔ مشفق خواجہ‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘خلیل الرحمان داودی‘ احمد فراز سے ملاقات ہوئی۔افتخار عارف خود مجھے ملنے کے خواہشمند ہوئے۔ ایک بار ڈاکٹر صاحب نے فون کیا کہ ازبکستان کے نامور اردو دوست تاش مرزا آئے ہوئے ہیں۔ انٹرویو کر لو۔ دفتر میں پہنچا تو ایک بزرگ تشریف فرما۔ ڈاکٹر صاحب نے تعارف کرایا کہ تاش مرزا سوویت یونین کے وقت پاکستان میں متعین سفارتی عملے میں تھے۔ پھر اردو کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔ اب ازبکستان میں اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہے ہیں۔ تاش مرزا کی بیٹی ڈاکٹرخال مرزا بھی وہاں اردو سے جڑی ہوئی ہیں‘ تاش مرزا پکے سفارت کار تھے۔ بات ہی نہ کرتے‘ کرتے تو مختصر‘ میں نے کوشش جاری رکھی اور آخر سنجیدہ سفارتی چہرے کو مسکراہٹ نے توڑ دیا۔ بولے تم صحافی ہم سفارت کاروں کو بھی بولنے پر تیار کر لیتے ہو۔ یہ انٹرویو بہت عمدہ رہا۔ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ کام کرنے والے عقیل عباس جعفری اور سردار پیرزادہ بھلے لوگ ہیں۔عقیل عباس جعفری تو خیر اب بین الاقوامی سطح پر جانے جاتے ہیں ۔ یہاں لاہور میں سید مسعود زیدی اور بیگم شاہین زیدی کے ساتھ مل کرتحقیقی جریدے نوادر کا اجرا کیا۔ مجھے ایڈیٹر مقرر کیا۔ پروفیسر طاہر مسعود‘ ڈاکٹر عطاء الرحمن اور بہت سے دیگر دوست ڈاکٹر صاحب کے گرد رہا کرتے۔ کیا نفیس‘ خوش لباس اور خوش گفتار تھے۔ انہیں شخص نہیں کہا جا سکتا، وہ شخصیت تھے۔ ڈاکٹر ممتاز کے انتقال کے بعد بھابی فرحت ان کی زندگی میں آ ئیں۔ بہت محبت کرنے والی۔ دو بیٹے نوید اور فرید ہیں‘ بیٹی فرحین ہے۔ ڈاکٹر صاحب کو ان کی خواہش پر شرقپور میں دفنایا گیا۔ ڈاکٹر صاحب سراپا پاکستانی تھے ۔وہ بین الاقوامی پہچان رکھتے تھے لیکن پنجاب اور پاکستان ان کی مٹی میں گوندھے ہوئے تھے ۔مٹی کی کہانیاں سنانے والے گوہر نوشاہی کی رحلت تحقیق‘ علم اور ادب کو سماجی اور ثقافتی بین الاقوامیت کے ساتھ دیکھنے والوں کے لئے بہت بڑا صدمہ ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔