مکرمی! ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں ہوتاتھا۔’’باکمال لوگ لاجواب سروس‘‘ پی آئی اے کا سلوگن تھا۔ اسی طرح ریلوے بھی ایک قابل رشک ادارہ تھا۔ لوگ ریلوے کے سفر کو ترجیح دیتے تھے۔رفتہ رفتہ ریاستی ادارے انحطاط پذیرہوتے گئے۔ایک سٹڈی کے مطابق اوسط درجے کے مفاد پرست لوگ کلیدی منصبوں پر فائز ہونے لگے۔ سیاست تجارت بنے لگی۔ دوست نوازی اور مفاد پرستی نے ریاستی اداروں کو تباہ کر کے رکھ دیا۔پاکستان کا آئین ہر شہری کو مساوی حیثیت دیتا ہے۔اسلام بھی مساوات کا مذہب ہے۔ ریاست مدینہ کا درس دینے والے اگر قائداعظم کے ریاستی قوانین کی پاسداری کریں تو یہ ہی کافی ہے۔قائداعظم وی آئی پی کلچر کیخلاف سخت قوانین کے حامی تھے اور جب زیارت سے کراچی پہنچے تو ائیرپورٹ سے گورنر جنرل ہاؤس جاتے ہوئے اْنکی ایمبولینس خراب ہو گئی۔اْنہوں نے شدید گرمی میں ڈیڑھ گھنٹہ دوسری گاڑی کیلئے سڑک پر انتظار کیا۔کسی شہری کو یہ خبر نہ ہو سکی کہ اْن کا محسن قائد سڑک پر زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ ہمارے موجودہ حکمران سیاسی قد کاٹھ میں قائداعظم کے پاؤں کی خاک برابر بھی نہیں ہیں مگر جب چمکتی گاڑیوں کے کارواں کے ساتھ نکلتے ہیں اور اپنے ہی ووٹروں کے راستے بند کر دیتے ہیں۔انکی شان وشوکت مغل شہزادوں اور بادشاہوں سے بھی کہیں زیادہ ہے۔برطانیہ کا شمار دْنیا کے امیر ترین ملکوں میں ہوتا ہے اس کا وزیراعظم چاربیڈروم کے گھر میں رہتا ہے اورکسی پروٹوکول کے بغیر باہر نکلتا ہے عام شہریوں کی طرح سفر کرتا ہے جبکہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے اس میں گورنر ہاؤس،ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کا کنالوں رقبے پر مشتمل ہونے کا کیا جواز ہے۔وسیع و عریض گھر اور دفاتر جمہوریت کے سراسر منافی اور بادشاہت کی علامت ہے جنہیں عام آدمی کے استعمال میں لایا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ (اقرا ء جمیل)