کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ کے ایک دو رکنی بنچ نے ایک مقدمے (زاہد بنام ریاست، 2021ء ) کے فیصلے میںقرار دیا تھا کہ ریپ کی شکار خاتون کی تنہا گواہی پر بھی عدالت میں ملزم کا جرم ثابت ہوسکتا ہے اور عدالت اسے سزا سنا سکتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے 6 اور 7 جون 2023ء کے اجلاس میں اس مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا اور کونسل کے چیئرمین جناب ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے مجھے اس پر کونسل کے ارکان کے سامنے اپنی تحقیق پیش کرنے کی دعوت دی۔ میری گفتگو کے اہم نکات یہ ہیں: ریپ کا جرم اب صرف "زنا بالجبر" تک محدود نہیں رہا ہے، بلکہ 2021ء میں کی گئی ترامیم کے نتیجے میں اس جرم کے مفہوم میں بہت وسعت پیدا ہوگئی ہے اور اب جنسی تشدد کی متعدد صورتوں پر ریپ کا اطلاق کیا جاتا ہے اور اس جرم کا شکار کوئی بھی "شخص" ہوسکتا ہے اور اب یہ جرم صرف عورتوں تک محدود نہیں رہا۔ واضح رہے کہ زنا بالجبر کی اصطلاح مسلمانوں کی روایت سے نہیں نکلی بلکہ ڈپٹی نذیر احمد اور دیگر نے مجموعہ تعزیراتِ ہند 1860ء کا اردو ترجمہ کرتے وقت rapeکا ترجمہ زنا بالجبر کیا، جبکہadultery کا ترجمہ "زنا بہ زنِ غیر" کیا۔ یہ دونوں اصطلاحات، بلکہ تصورات، ہمارے نظام کے لیے اجنبی تھیں۔ "بالجبر" کی ترکیب انہوں نے بعض دیگر جرائم کے ساتھ بھی استعمال کی، جیسے سرقہ بالجبر، استحصال بالجبر، وغیرہ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ فقہائے کرام اسے جرم زنا کی ایک قسم سمجھتے ہیں یا جبرکی؟ اس کا جواب یہاں سے ملتا ہے کہ اگر کسی خاتون نے دعوی کیا کہ اس کے ساتھ کسی نے زبردستی زنا کیا ہے تو فقہائیکرام نے اس خاتون سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ 4 گواہ لائے، ورنہ اسے زنا کا جھوٹا الزام لگانے کی پاداش میں 80 کوڑے لگائے جائیں گے۔ بہ الفاظِ دیگر، فقہائے کرام زنا بالجبر کے الزام کو قذف نہیں مانتے تھے۔ ہمارے ہاں 2006ء تک جو حدود آرڈی نینسز رائج رہے، ان میں بھی ایک جانب زنا اور زنا بالجبر میں فرق کیا گیا اور دوسری جانب صرف زنا کے الزام کو ہی قذف قرار دیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ پولیس نے بالعموم اس قانون کا غلط اطلاق کیا اور پھر وفاقی شرعی عدالت کو ہی معاملے کی درست نوعیت بتانی پڑی۔ پھر چونکہ فعلِ زنا کے دوران میں کسی عضو کو نقصان پہنچنے، بلکہ موت واقع ہونے کے امکانات بھی ہوسکتے ہیں،اس لیے فقہائے کرام ان امکانات پر بھی بحث کرکے بتاتے ہیں کہ ایسی صورت میں متعلقہ قانونی نتائج مرتب ہوں گے، مثلاً دیت، ارش اور دیگر متعلقہ احکام کا اطلاق ہوگا۔ یہ سوال بھی اہم ہوتا ہے کہ اکراہ کی کون سی قسم حد کو ساقط کرے گی، یعنی کب مانا جائے گا کہ یہ فعل زبردستی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس مرد یا عورت کو سزا نہیں دی جائے گی جس سے یہ فعل زبردستی کروایا گیا ہے یا جس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے؟ فقہائیکرام نے تصریح کی ہے کہ عورت سے تو اس وقت بھی حد کی سزا ساقط ہوجائے گی جب اس پر اکراہِ ناقص کیا جائے، لیکن مرد سے صرف اس صورت میں ہی حد ساقط ہوسکے گی جب اکراہِ تام کے ذریعے اسے اس فعل پر مجبور کیا گیا ہو (مثلاً اسے قتل کردینے یا شدید زخمی کردینے کی دھمکی دی گئی ہو)۔ بعض لوگوں کو ایک جزئیے سے شبہ لاحق ہوا ہے۔اگر 2گواہ کہیں کہ یہ باہمی رضامندی کا معاملہ تھا اور 2کہیں کہ یہ جبر کا معاملہ تھا، تو فقہائیکرام کہتے ہیں کہ اس سے فعلِ زنا ثابت نہیں ہوتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جبر کے معاملے کو بھی زنا کی ایک ذیلی قسم کے طور پر دیکھتے ہوئے اس کیلئے 4 گواہ طلب کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ رضامندی کا فعل اور جبری فعل الگ جرائم ہیں اور اس وجہ سے جرمِ زنا، جس کے ثبوت کے لیے 4 گواہ درکار ہوتے ہیں، ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ گواہوں نے الگ نوعیت کے جرائم کی گواہی دی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں 2006ء تک جو حدود آرڈی نینسز رائج رہے، ان میں بھی زنا بالجبر کے ثبوت کے لیے 4 گواہوں کی شرط ضروری نہیں تھی، بلکہ قرائن اور واقعاتی ثبوتوں سے بھی "زنا بالجبر مستوجب تعزیر"کا جرم ثابت ہوسکتا تھا اور تعزیر میں سزائے موت بھی دی جاسکتی تھی۔ بعض مالکی فقہائے کرام نے عصمت دری کے جرم کو "اغتصاب" کا نام دے کر اسے "حرابہ" کے مفہوم میں شامل سمجھا ہے۔ بعض لوگوں نے یہ فرض کیا ہے کہ مولانا امین احسن اصلاحی کی رائے اس سے ملتی جلتی ہے، لیکن ان مواقف میں کچھ جوہری فروق پائے جاتے ہیں۔ مثلاً مولانا اصلاحی کی رائے کی بنیاد یہ مفروضہ ہے کہ رجم "تقتیل" (عبرتناک سزائے موت) کی ایک صورت ہے جو حرابہ کی سزاؤں میں سے ہے، تو رجم گویا حرابہ کی سزا ہے۔ اس مفروضے کی بنا پر وہ قرار دیتے ہیں کہ عہدِ رسالت میں جنھیں رجم کی سزا سنائی گئی، وہ حرابہ کے مرتکبین تھے۔ اس کے برعکس اغتصاب کو حرابہ کہنے والے مالکی فقہائے کرام اس اجماعی موقف کے قائل ہیں کہ رجم کی سزا صرف زانی محصن کے لیے ہی ہے۔ بہرحال وفاقی شرعی عدالت نے رشیدہ پٹیل بنام وفاق پاکستان (1989ء ) میں مولانا اصلاحی کی رائے پر انحصار کرتے ہوئے زنا بالجبر کو حرابہ قرار دیا اور کہا کہ اگر سرمایہ لوٹنا حرابہ ہے، تو انسان کے پاس اس کی عزت سے زیادہ قیمتی سرمایہ کیا ہوتا ہے؟ یہ جذباتی بات قانون کے اصولوں کی رو سے بہت کمزور ہے کیونکہ عزت کو سرمایہ/مال قرار دینے کے بعد اس کی ملکیت، اس کے قابلِ فروخت ہونے یا قابلِ کرایہ ہونے اور اس کی قیمت مقرر کرنے کے پیمانے جیسے امور کی طرف شاید عدالت کی توجہ نہیں گئی۔ عدالت نے البتہ یہ بھی کہا کہ اس پر حد کی سزا کے لیے ضروری ہوگا کہ جرم 2 گواہوں کی گواہی سے ثابت ہوا ہو،جیسا کہ حد حرابہ کے لیے حکم ہے؛ نیز یہ کہ عورتوں کی گواہی اور واقعاتی ثبوتوں پر تعزیر کی سزا تو دی جاسکے گی لیکن حد کی سزا نہیں دی جاسکتی۔ گویا اس فیصلے سے صرف اتنا فرق پڑنا تھا کہ زنا بالجبر پر حد کی سزا کے لیے گواہوں کی تعداد 4 سے کم ہو کر 2 ہوجاتی۔ باقی امور جوں کے توں رہتے۔ اس فیصلے کے خلاف حکومت اپیل میں سپریم کورٹ گئی جہاں 34 سال بعد بھی اپیل معلّق ہے۔ اگر کسی نے جنسی تشدد کی دوسری صورتیں اختیار کی ہوں، لیکن وطی (intercourse) نہیں کی، تو فقہائے کرام اس فعل پر زنا کے احکام کا اطلاق نہیں کرتے، لیکن جنسی تشدد کی مختلف صورتوں کو فساد فی الارض کے مفہوم میں شامل سمجھتے ہیں اور حکومت کے لیے اس اختیار کے قائل ہیں کہ وہ فساد کی روک تھام اور اس کے خاتمے کے لیے "سیاسہ شرعیہ" کے اصول کے تحت سخت سے سخت سزائیںمقرر کرے اور یہ کہ فساد کی بعض سنگین صورتوں میں عدالت سزائیموت بھی دے سکتی ہے۔