ورلڈ بینک ( World Bank ) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی چالیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ ورلڈ بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق جن خاندانوں کی آمدن فی دن 3.65 ڈالر سے کم ہو تو وہ خاندان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔3.65ڈالرسے مراد ہے 1015روپے فی دن ۔ آپ کے علم میں ہو گا کہ کسی بھی خاندان کا ہر فرد تو کماتا نہیں ہے ، سو ا یسے پورے خاندان کو مبلغ تیس ہزار پانچ سو روپے میں پورا مہینہ گزارنا ہو تا ہے ۔ اب یہ سب ایک خاندان کے کل افراد کی تعداد پر منحصر کرتا ہے ۔آپ جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں غریب خاندانوں کے افراد کی تعداد بھی کچھ زیادہ ہوتی ہے ۔ان سب حقائق کا نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ اب حالات یہ ہیں کہ ہمارے برادر عرب ممالک میں جب بھی بھکاری پکڑے جاتے ہیں تو ان میں ایک بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے۔ ابھی چند روز پہلے گزری عید کے موقع پر کراچی شہر میں پورے پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں بھکاری پہنچ گئے ہیں ۔ اب یہ باتیں واضح طور پر اس بات کی غمازی نہیں کرتیں کہ ملک میں غربت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے؟۔ غربت میں اضافے کا ایک منطقی نتیجہ جرائم میں اضافہ ہوتا ہے۔ سو وہ بھی یہ قوم بھگت رہی ہے ۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان نے معاشی ترقی کی ہے ، اسی طرح ہمارے ملک کا ہی حصہ جو کبھی مشرقی پاکستان کہلاتا تھا ، اب بنگلہ دیش بن کر معاشی ترقی کی منزلیں طے کر چکا ہے اور ہم سے کہیں آگے نکل چکا ہے ۔ سوچنے کی یہ بات ہے کہ ہمارے ہاں کیوں غربت میں آئے روز اضافہ ہوئے جا رہا ہے اور لوگ خودکشیوں پر مجبورہیں ۔ ابھی کل کے اخبار میں ایک دل دہلا دینے والی خبر تھی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی اور سات بچوں کو کلہاڑی اور ڈنڈوں سے قتل کر دیا ہے ۔ اس کی وجہ اس خاندان کے تنگی حالات تھے ۔کیا اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی ہے کہ مہنگائی کے ہاتھوں ہر شخص پریشان ہے ۔ بجلی اور سوئی گیس کے ہر روز بڑھتے بلوں نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر دی ہیںلیکن اس ملک میں وہی گنے چنے خاندان حکمرانی بھی کر رہے ہیں اور موج میلے بھی ۔ان خاندانوں نے اپنی حکمرانی کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا ہے ۔ ملک کی حکمرانی اور وسائل کو ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیا ہے ۔ ایسے گٹھ جوڑ کی بنیاد چونکہ کسی طور کسی نظریہ پر نہیں اس لیے اس میں شامل سب کے ذاتی مفادات ہیں۔ اب آپ کے سامنے ہے کہ پنجاب شریف خاندان کے پاس ہے تو سندھ زرداری خاندان کے پاس۔اسی طرح اگر جناب شہباز شریف ملک کے وزیراعظم ہیں تو جناب زرداری ملک کے صدر ہیں۔ اس دفعہ اگر محترمہ مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں تو اگلی دفعہ جناب بلاول بھٹو زرداری اس ملک کے وزیراعظم ہوں گے۔ دوسری طرف جناب محسن نقوی صاحب اس ملک کے وزیر داخلہ ہیں حیران کن بات یہ ہے کہ وہ براہراست عوام کے چنیدہ نہیں ۔ ملک میں کوئی نظام نہیں ہے، یہاں سب کچھ ذاتی تعلقات پر چلتا ہے ۔ صوبہ سندھ میں دیکھ لیں ، جناب زرداری صاحب کے دوست اس صوبہ کی اہم وزارتیں سنبھالے ہوئے ہیں۔ اسی طرح پنجاب میں دیکھ لیں محترمہ مریم نواز شریف کی اقرباء اور ساتھی اہم وزارتیں سنبھالے ہیں۔اس قسم کے Arrangements میں آپ کو سب لوگوں کو ذاتی طور پر خوش کرنا پڑتا ہے ۔ سب کو کسی نہ کسی نوعیت کے حکومتی عہدے دینے پڑتے ہیں اور مراعات دینی پڑتی ہیں ۔ان سب لوازمات کامنطقی نتیجہ قومی خزانوں کے منہ کھولنا ہوتا ہے ۔ ملک کی معاشی صورت حال بد ترین حالات سے گزر رہی ہے ۔ موجودہ وزیر خزانہ آج واشنگٹن روانہ ہو چکے ہیں ۔ مقصد سب پر واضح ہے کہ کسی طور آئی ایم ایف (IMF ) اور ورلڈ بینک سے کسی ادھار کا بندوبست کیا جائے۔ ان اقتصادی حالات میں حکمران طبقات کی ترجیحات دیکھیں ! ہر چیز کا اور ہر اٹھائے قدم کا ایک منطقی نتیجہ ہوتا ہے ۔ ملک کے باختیار طبقات کے سامنے صرف اور صرف اپنے اور اپنے خاندانوں کے مفادات ہیں ۔ یقین کریں ، ہر طرف مایوسی ہے ۔ لیکن کسی بھی راہ پر چلنے کا ایک منطقی نتیجہ ہوتا ہے ۔ اور وہ نتیجہ جلد یا بدیر سامنے آ جاتا ہے ۔موجودہ حالات میں قوم کو وہ سیاستدان اچھا لگتا ہے جس کے اس ملک سے باہر نہ کوئی محلات ہوں اور نہ کوئی بڑے بڑے کاروبار ۔عمران خان کہتا ہے کہ میرا جینا مرنا یہیں ہے اور میں نے یہ ملک چھوڑ کر کہیں نہیں جانا۔ آپ نے زندگی میں محسوس کیا ہو گا کہ خلوص کی ایک اپنی خوشبو ہوتی ہے جو لوگوں کو محسوس ہوتی ہے ۔ آج بھی لوگ اس کی خوشبو کو نہیں بھلا سکے ۔ آپ نے فروری میں ہونے والے انتخابات میں لوگوں کے گروہ پولنگ سٹیشنوں پر اس کے نامزد کردہ امیدواران کے انتخابی نشانات ڈھونڈتے دیکھے لیکن اصل جیت تو فارم 47 دلاتے ہیں۔چلیں ، جیسے تیسے کر کے وفاقی اور صوبائی حکومتیں تو بن گئیں لیکن ایک احتیاط برتی گئی ہے کہ میاں نواز شریف کو کسی بھی سرکاری عہدہ سے دور رکھا جائے۔ کبھی کبھی یہ خیال آتاہے کہ میاں نواز شریف سوچتے تو ہونگے کہ کیا وہ اسی لیے پاکستان واپس آئے تھے ؛ چلیں اب وہ انگلینڈ نہیں تو مری کی خوشگوار فضائوں میں وقت گزارتے ہیں۔ ان کی دختر جو ہر مشکل میں ان کے ساتھ کھڑی تھیں وہ بھی تو اپنے صوبہ کی وزیراعلیٰ بن چکی ہیں ، ان کے لیے یہ بھی تو باعث اطمینان ہو گا ۔انسان کو ہمیشہ اچھے حالات کی توقع رکھنی چاہیے ، اللہ اس ملک کو ایک بہتر لیڈرشپ عطا کرے ۔