بہاولنگر واقعہ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ روایتی میڈیا (اخبار اور ٹیلی ویژن) نے قدرے احتیاط سے کام لیا ہے مگر سوشل میڈیا نے اِس واقعہ کو جس انداز میں پیش کیا ہے اْس سے ہیجان انگیزی پیدا ہوئی ہے۔ ہر دوسرا آدمی اِسی پہ بحث کررہا ہے کہ شاید دو ریاستی اداروں کے درمیان تصادم کی فضاء پیدا ہوگئی ہے۔ سوشل میڈیا کی شر انگیزی نے کالعدم تنظیموں اور دیگر ملک دشمن عناصر کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ دو ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کی بجائے دراڑ پیدا کر سکیں۔ اچھا ہوا کہ دونوں اداروں کے سربراہان نے بروقت بیانات جاری کئے تاکہ منفی پراپیگنڈہ کا قلع قمع کیا جاسکے۔ مگر سوشل میڈیا کی لگائی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی۔کئی مواقع پر ایسا ہوا ہے کہ سوشل میڈیا نے کئی نامور شخصیات کی ناگہانی موت کی خبر چلادی۔ مجبوراًََ اْنہیں سوشل میڈیا پر آکر تردید کرنی پڑی ۔ مثلاََ مایہ ناز ادیب انور مقصود کے متعلق سوشل میڈیا کا رویہ انتہائی نامناسب رہا ہے۔ حیران کن طور پر جنابِ انور مقصود کے نام سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کئی ’ذاتی‘ اکاوئنٹس چل رہے ہیں اور کچھ تو ’تصدیق شدہ‘ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ مگر کئی بار جنابِ انور مقصود نے ویڈیو ز بناکر اِس بات کی تردید کی ہے کہ اْن کے پاس جو موبائل فون ہے اس پر کسی بھی طرح کی سوشل میڈیا اپلی کیشن چلائی جاسکتی اور نہ ہی اْن کا کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کوئی اکاؤنٹ ہے۔ اْنہوں نے کئی بارمتعلقہ اداروں کو آگاہ کیا ہے کہ اْن کا سوشل میڈیا پر کوئی اکاؤنٹ نہیں مگر اْن کے نام سے چلنے والے کئی ’ذاتی اکاؤنٹس‘ تاحال چل رہے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے ’میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی‘ کے نام سے ایک مرکزی ادارہ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے پلیٹ فارم سے اخبارات، ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کیا جانا تھا۔ جو نہ ہو سکا۔ اَب اِس شْتر بے مہار سوشل میڈیا نے شرفاء کی پگڑیاں اْچھالنا آسان کردیا ہے۔فیس بک، انسٹا گرام، ایکس (ٹوئٹر)، لنکڈ اِن، ٹِک ٹاک، سنیپ چیٹ اور دیگر کئی پلیٹ فارمزموجود ہیں جو ہر صارف کے موبائل پر مہیا ہیں۔ یہ بہت ہی آسان ہے کہ صارف یا تو خود مسیج ٹائپ کرکے پوسٹ کردیتا ہے یا کسی اور کی پوسٹ کو شیئر کردیتا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ اس قسم کیخیالات یا پوسٹ کو شیئر کرنے سے کسی فرد، فرقہ، معاشرتی گروپ، ادارہ، پارٹی، گروہ یا انفرادی طور پر کسی کی دل آزاری تو نہیں ہوگی؟ مگر شاید سوشل میڈیا کی رنگا رنگی صارف کو اِن سوالات کو سوچنے کا موقع ہی نہیں دیتی۔ بہاولنگر واقعہ زندہ جاوید مثال ہے۔ دو ریاستی اداروں میں سے دونوں یا ایک کے گنے چنے افراد کی غلطی ہوگی۔ مگر سوشل میڈیا پہ جاری پوسٹس کی بھرمار نے دونوں اداروں کے درمیان تناؤ کی فضاء پیدا کردی۔ اِس سے ملتا جلتا واقعہ گزشتہ سال جون میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پیش آیا۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے د و افراد پر ایف آئی آرز ہوئیں۔ ایک ایف آئی آر میں طالبات کی ’سینکڑوں نازیبا ویڈیوز‘ کا ذکر کردیا گیا۔ اِن فرضی ’ویڈیوز‘کو بنیاد بنا کر ایک مقامی یوٹیوبر نے جامعہ کے مین گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر وی لاگ کردیا اور بنا تحقیق کئے، سوشل میڈیا صارفین ہاتھ دھو کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پر چڑھ دوڑے۔ کسی ایک صارف نے بھی ایک لمحہ کیلئے یہ سوچنا گوارا نہیں کیا کہ جنوبی پنجاب کی ثقافت، معاشرت، رسوم و رواج بالائی پنجاب کی نسبت بہت زیادہ سخت ہیں۔ ایک جامعہ جس میں پینسٹھ ہزار طلبہ و طالبات پڑھ رہے ہوں اور کسی ایک طالبہ نے بھی کسی کے خلا ف درخواست نہ دی ۔ جامعہ کے سابق وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے ببانگ ِ دہل دفاع کیا کہ جامعہ کے خلاف مذموم منصوبہ بندی کے ذریعے سازش کی جارہی ہے۔ جان بوجھ کر ’ہنی ٹریپ‘ کے ذریعے افسران کو بدنام کیا جا رہا ہے۔ لیکن تب تک بات کہیں آگے نکل چکی تھی۔ چونکہ شْتر بے مہار سوشل میڈیا منفی پراپیگنڈہ کو ہوا دے چکا تھا۔اِس لئے کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا کہ سابق وائس چانسلر صاحب درست کہہ رہے ہیں۔ خیر کئی اداروں نے انکوائریاں کیں۔ حتیٰ کہ حکومت ِ پنجاب کو یک رکنی جوڈیشل کمیشن بناکر بھیجنا پڑا۔ جس نے میڈیا میں باقاعدہ اشتہار دیا کہ کسی کو شکایت ہو تو وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوکر اپنی شکایت کا ازالہ کراسکتا ہے۔ مگر چونکہ سارا جھوٹ تھا اِس لئے جوڈیشل کمیشن نے حکومت کو روپورٹ پیش کی کہ اسلامیہ یونیورسٹی میں اِس قسم کے کسی سکینڈل وجود ہی نہیںتھا۔ البتہ کمیشن نے پولیس کے پانچ سے چھ افراد کے خلاف کارروائی تجویز کی۔ جس کی منظوری باقاعدہ پنجاب کابینہ نے دی مگر اْن پر تاحال عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اگر اْس وقت ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی تو آج بہاولنگر کے واقعہ میں سوشل میڈیا دوبارہ دو اداروں کے درمیان تناؤ کی فضاء جیسا ماحول پیدا کرنے کا تاثر نہ دے سکتا۔ سوشل میڈیا ایک ایسے آسیب کا روپ دھار چکا ہے جو ہر ادارے، ہرگروہ، ہر پارٹی، اور ہر فرد کے سر پہ منڈلا رہا ہے۔ سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب دوبارہ وائس چانسلر تعینات ہوجائیں گے، اسلامیہ یونیورسٹی بھی قائم رہے گی، بہاولنگر پولیس کا تھانہ، اہلکاران اور پاک فوج کے جوان بھی موجود رہیں گے، مگر سوال صرف اِتنا سا ہے کہ جن افراد نے سوشل میڈیا کا منفی استعمال کیا، شرفاء کی پگڑیاں اْچھالیں، روایتی و سوشل میڈیا پہ خبریں چلوائیں کیا اْنہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا؟ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور گزشتہ ایک سال سے انصاف کی طلبگار ہے۔ جامعہ اور اْس کی قیادت کی نیک نامی کو داغدار کیا گیا ہے۔ ہم اگر آپ واقعی اداروں کی حْرمت کا پاس رکھنے میں سنجیدہ ہیں توہمیں ’جزوی انصاف‘کی بجائے سب کے ساتھ برابری کا انصاف کرنا ہوگا۔