سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں، کل کے حریف آج کے حلیف اور کل کے حلیف آج  کے حریف ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کہیں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اور کہیں وسیع تر قومی مفاد کے نام پر سیاستدان کبھی جڑتے ہیں اور کبھی اختلافات پر ایک دوسرے سے فاصلے بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ بحر سیاست کا کمال ہے کہ وہ طلاطم خیز موجوں  کے باوجود  تمام سیاستدانوں کو اقتدار کے ساحلوں تک پہنچادیتی ہے ہے۔ کل تلک ایک دوسرے کو سڑکوں پر گھسیٹنے کا شور مچا رہے تھے آج اقتدار کے سنگھاسن پر گزشتہ ڈیڑھ برس سے اکٹھے  براجمان ہیں۔۔۔ اب طبل انتخاب بجنے کو ہے ،پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں صف بندی میں مصروف ہیں۔  ایک دوسرے سے شکووں شکایت کا موسم بھی آرہا ہے  اور پھر دشنام طرازیوں کا بازار گرم ہوگا، اس کی ایک ہلکی سی جھلک گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان نظر آئی تاہم جلد ہی " لڑائی   لڑائی معاف کرو اپنے دل کو صاف کرو" کے فارمولے پر عمل کیا جا چکا ہے ،پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمی کی مسند تک پہنچانے  کے لئے جوڑ  توڑ میں  مصروف ہیںاس ضمن میں  بلوچستان، جنوبی پنجاب اور وسطی پنجاب میں ان کے دھیمے لہجے کی پر اثر سیاست یا چمک کا سحر چل سکتا ہے تاہم نوازلیگ کی طرف سے کسی بھی ایسی کوشش کی مخالفت کے بعدکام مشکل ضرور ہو سکتا ہے،  ناممکن نہیں۔ ادھر میاں نواز شریف کی وطن واپسی کے لئے راہ ہموار کی جا رہی ہے قانونی موشگافیوں کو دور کرنے اور واپسی پر براہ راست جاتی امرا  پہنچنے کے بعد میاں نواز شریف کے سامنے ان کی اپنی پارٹی سے کون جرأت کرے گا کہ وزارت عظمی کا خواب بھی دیکھے۔ تاہم اقتدار کا ہما  سر پر بٹھانے والی قوتیںشاید یہ قبول نہ کریںاور قرعہ فال ایک بار پھر چھوٹے بھائی شہباز شریف کے نام نکل آئے دونوں صورتوں میں اقتدار گھر کی ہی لونڈی رہے گی۔ یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ مقبولیت اور قبولیت میں یوں تو تھوڑا ہی فرق ہے۔۔۔ تاہم  قبولیت کے پیمانے پر کون پورا اترے گایہ ووٹرز پر منحصر ہو گا ۔پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اپنے اپنے جھنڈے تلے انتخابات میں حصہ لیں گی تاہم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے فارمولے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اس انتظام کے باوجود شفاف انتخابات کی صورت میں بڑے بڑے بت پاش ہونے کا احتمال ہے انتخابات متنازع ہوئے تو دال پھر سے جوتیوں میں بٹے گی اور سیاسی عدم استحکام کو ہوا ملے گی۔ دوسری طرف پاکستان استحکام پارٹی کے سر خیل جہا نگیر ترین  اپنے ارد گرد بہت سے سیاست دانوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب تو ہو گئے ہیں لیکن ان میں سے بیشتر وہ لوگ ہیں جن کے دامن میں بقول شخصے بے وفائی کے سوا کچھ نہیں۔پاکستان استحکام پارٹی اپنی پیدائش  کے وقت ہی سے کڑی تنقید کی زد میں ہے۔ پارٹی بنانے کے لئے وہ ہی روایتی طریقہ اپنایا گیا جسے ہمیشہ سے شک کی نگاہوں کے ساتھ دیکھا گیا۔پاکستان استحکام پارٹی میں  جانے والے  بیشتر افراد کا تعلق سابقہ حکومت سے رہا ہے جنہیں فی الحال عوام کی ایک بڑی تعداد نے قبول نہیں کیا۔ دوسرا یہ کہ مہنگائی اور سیاسی ابتری کے گھٹن ذدہ  موسم میںجسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کی کوشش  میں  مصروف عوام  ان پر اعتماد کرتے ہیں یا نہیں یہ راز بھی جلد کھل جائے گا۔ موجودہ حالات کے مطابق یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان استحکام پارٹی الیکشن سے قبل ہی تحلیل ہو جائے گی یا پھر کسی اور پارٹی میں ضم ہونے کو ترجیح دے گی۔ کیونکہ موجودہ حالات میں اس جماعت میں شامل کسی بھی لیڈر کا الیکشن جیتنا ایک خواب سے کم نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف سے اسٹاف معاہدے کے بعد حکومتی کار پردازوں سمیت وزیر اعظم شہباز شریف بھی لڈیاںڈال رہے ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے حکومت کے تحلیل ہونے کے بعد کئیر ٹیکر حکومت کے لئے اس ساری صورتحال سے نمٹنا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ ان حالات میں الیکشن کا شور و غوغا تو بلند ہوتا رہے گا تاہم انتخابات کا ہونا مشکوک نظر آتا ہے  ادھر آئی ایم ایف کے وعدے کے بعد  خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گرنے  والے روپے کے مردہ جسم میں ہلکی سی جنبش تو ہوئی لیکن بیرونی قرضوں کے کوہ ہمالہ کے سامنے  سخت شرائط کے تحت ملنے والی مالی امداد کے مصنوعی سانس کب تلک دم توڑتی  معیشت کو سنبھالا دیں گے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔فکری انتشار اور سیاسی عدم استحکام  کے جھکڑ تھمنے کا نام نہیں  لے رہے۔ گزشتہ سال آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کی بحالی کا  کام ابھی  مکمل نہیں ہوا تھا کہ معاشی طور پر ڈانواں ڈول ملک کو ایک بار پھر  طوفانی بارشوں اور سیلاب کا سامنا ہے۔ ان نامساعد حالات میں مجموعی دانش اور سیاسی بصیرت وقت کا تقاضہ ہے تاہم کشیدہ ماحول نے سارا منظر نامہ دھندلا رکھا ہے۔ یہ تو سنتے آئے تھے سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا لیکن اب تو  پتہ چل رہا ہے سیاست کی آنکھ سے شرم و حیا اور احساس بھی جاتا رہا۔ایسے ناگزیر حالت میں بیرونی سرحدوں  پر خطرات کا منڈلانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں گزشتہ دنوں بھارتی وزیر اعظم کی جانب سے  زہریلے بیانات ان کی وسعت پسندانہ سوچ کی عکاس ہے۔گزشتہ روز ہی اسرائیل کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں بیان دینا بھی تشویش ناک ہے۔ حالانکہ یہ وہی اسرائیل ہے جو ہر روز سرحدی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے فلسطین کے نہتے اور مظلوم عوام پر جدید اسلحہ سے گولہ باری کرتا ہے ۔ سیاست ریاست کے وجود سے ہے۔سیاسی جماعتیں  اپنے اختلافات بھلا کر   ایک پیج پر یکجا ہو جائیں۔"ریاست ہو گی تو سیاست ہو گی"۔ ٭٭٭٭٭