آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے انتخابات کے کامیاب انعقاد پر پوری قوم، نگران حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان، سیاسی جماعتوں اور تمام جیتنے والے امیدواروں کو مبارکباد دی ہے۔آرمی چیف نے کہا کہپاکستانی عوام کی جانب سے اپنے ووٹ کا حق آزادانہ اور بلا روک ٹوک استعمال کرنے سے آئین میں درج جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے ان کی وابستگی ظاہر ہوتی ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد مرکز اور صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے پیش قدمی کر رہی ہیں۔ان حالات میں آرمی چیف کا بیان نئی حکومت کی تشکیل کے لئے ایک حوصلہ افزا فضا فراہم کرنے کا موجب بنا ہے ۔انٹر سروسز پبلک ریلیشنز کی طرف سے جاری کردہ بیان میں، جو لگتا ہے کہ مختلف سیاسی فریقوں کے مابین اتحاد بنانے کے لیے کوششوں کی توثیق کرتا ہے، آرمی چیف کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت اور ان کے کارکنوں کو ذاتی مفادات سے اوپر اٹھ کر ملک کے لئے اپنی کوششوں کو ہم آہنگ کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ عوام نے آئین پاکستان پر اپنا اجتماعی اعتماد ظاہر کیا ہے، یہ تمام سیاسی جماعتوں پر فرض ہے کہ وہ سیاسی پختگی اور یکجہتی کے ساتھ کام کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ "پاکستان کی متنوع سیاست اور تکثیریت کو قومی مقصد کے ساتھ جڑی تمام جمہوری قوتوں کیمخلوط حکومت اچھی طرح سے پیش کر سکتی ہے۔انتخابات اور جمہوریت پاکستان کے عوام کی خدمت کا ذریعہ ہیں بذریعہ سیاست آگے بڑھنے کے لیے موثر باہمی رابطے کی ضرورت ہے جو 250 ملین آبادی والے ترقی پسند ملک کے لیے موزوں ہو۔ پاکستانی عوام نے حالیہ انتخابات میں آزادانہ طور پر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔اگرچہ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد نتائج کی تاخیر سے کچھ مسائل سامنے آئے تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پولنگ ڈے پر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لئے پاک فوج اور دیگر اداروں نے قابل قدر کردار اداکیا۔سکیورٹی اداروں کی خدمات اور پر امن ماحول کے حوالے سے یورپی یونین کی جانب سے سراہا گیا ہے۔جمہوریت کے حق میں بولنے والے یورپی ممالک کی تنظیم کی جانب سے پاکستان میں انتخابات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شہریوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کا موقع ملا۔ خواتین اور اقلیتوں کا بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنا خوش آئند ہے۔لوگوں کاکثیر تعداد میں ووٹ ڈالنا جمہوریت کی مضبوطی اور پاکستانی عوام کے جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار ہے۔یورپی یونین کا کہنا ہے کہ تمام اداروں کو انتخابی عمل سے متعلق تحفظات اور شکایات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ترجمان کے مطابق پاکستان یورپی یونین کا اہم شراکت دار ہے اور یورپی یونین پاکستانی حکومت سے تعاون کی خواہاں ہے۔یورپی یونین پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق ، گڈ گورننس اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے بہتری لانے کے عمل کو خوش آئند قرار دیتی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ حالیہ انتخابات کو سول ملٹری تعلقات کے تنظر میں دیکھ رہے ہیں۔ملک کو لاحق خطرات اور سیاسی قیادت کی استعداد کے پیش نظر بعض حلقوں نے اس معاملے پر سنجیدہ اقدامات کی رائے دی ہے۔اگرچہ سویلین کنٹرول کا حکم عالمگیر توجہ کا حامل ہے لیکن ہمارے کم معیاری جمہوری نظام، پست اخلاقی و سیاسی روش اور نااہل حکمرانی کے پیش نظر، اس طرح کے معاملات پر حتمی پالیسی دور کی بات رہی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قطبین میں فاصلہ بڑھنے لگتا ہے ۔ بہر حال رایستی نظام پر سویلین کنٹرول ٰ سیاسی قیادت کی پوشیدہ خواہش رہی ہے۔مسلم لیگ ن، پی پی پی اور تحریک انصاف کی قیادت اس کا خواب دیکھتی ہے لیکن کسی تنازع کے بنا یہ کیسے ممکن ہو اس کی صورت دکھائی نہیں پڑتی۔نئی پارلیمنٹ کو اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرنا ہوگا۔دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک نے پاکستان سے کہیں زیادہ مشکل حالات میں ترقی کی ہے۔سنگاپور اور ملائیشیا سے لے کر روانڈا اور ویتنام تک اصلاحات متعارف کرانے والے ممالک کو اہم جغرافیائی نقصان یا دہائیوں کے کمزور تنازعات کے اثرات پر قابو پانا پڑا ہے۔آج ان ممالک نے نیشنلزم کے جذبے کو اجاگرکیا ہے، اپنی حکمرانی کے فرسودہ طریقوں کو تبدیل کیا ہے اور خرابیوں کو بہتر طور پر صحت مند قوتوں میں تبدیل کرنے کے لیے حکمت عملی کے ساتھ کام کیاہے۔سنگاپور اب ترقی کے مرکز کے طور پر ابھرا ہے۔ روانڈا تیزی سے تنازعات سے بھری اپنی تاریک تاریخ سے نجات حاصل کررہا ہے ، اب اس کی ترقیاتی ریاستی ماڈل پر توجہ مرکوز ہے۔ دونوں ممالک میں گورننس اور ادارہ جاتی تبدیلی مرکزی توجہ کا مرکز رہی ہے۔آرمی چیف نے جن مضبوط ہاتھوں کی بات کی انہیں کام کرنے کے لئے انتقامی سیات کا خاتمہ اور مضبوط معیشت درکار ہے ۔پاکستان کو ٹیکسوں کی وصولی کو بہتر بنانے کے لیے اہم کوششوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر ٹیکس پالیسی کے مضبوط نفاذ کے ذریعے، تاکہ اپنے پروگراموں کی مالی معاونت کے لیے ریاست کی صلاحیت کو وسعت دی جا سکے۔مجموعی طور پر ادارہ جاتی معیار کو بہتر بنانے، کاروباری ماحول کو مضبوط بنانے اور احتساب کو بہتر بنانے کے لیے اہم اصلاحات کرنا ہوں گی۔18ویں ترمیم مقامی سطح پر انتظامی، مالی اور سیاسی سرگرمیوں کو گہرا کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے لیکن 18ویں ترمیم کا صرف نصف وعدہ پورا ہوا ہے۔ وفاق سے صوبے تک مالی کود مختاری پہنچ گئی لیکن صوبے سے ڈسٹرکٹ اور تحصیل کی سطح تک اختیارات کی منتقلی ابھی باقی ہے۔مقامی سطح کے اداروں کو بااختیار بنانا ، شہریوں کے قریب ترین ضروری انتظامی اور سروسز کی فراہمی سے سیاست میں عام شہری کے مقامکو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔