معروف دانشور اور سینئر صحافی ارشاد امین ملتان میں انتقال کر گئے۔ ارشاد امین کا تعلق وسیب سے تھا، مگر وہ بہت عرصہ پہلے لاہور چلے گئے وہاں اُن کی شادی ہوئی اور مستقل سکونت لاہور میں اختیار کی، اُن کا اوڑھنا بچھونا صحافت تھا، لاہور پریس کلب اُن کا مستقل ڈیرہ تھا، جب بھی ملنا ہوتا پریس کلب چلے جاتے، لاہور پریس کلب نے اُن کی خدمات کے اعتراف میں لائف ممبر شپ کا اعزاز دیا، ارشاد امین کا تعلق میرے آبائی ضلع رحیم یار خان کے علاقے چاچڑاں شریف سے تھا۔ وہ 25 دسمبر 1960ء کو عطاء محمد پہوڑ کے گھر پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم چاچڑاں اور میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول خان پور سیحاصل کی اور گریجویشن اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ہوئی، خان پور ہائی سکول میں میرے بھائی مرحوم منیر احمد دھریجہ کے کلاس فیلو تھے۔ 1981ء میں جب ہم نے خان پور میں دھریجہ پرنٹر قائم کیا تو اس دوران ارشاد امین سے طویل نشستیں رہتیں اور سکول کے زمانے کو یاد کیا جاتا اور اتفاق سے ہائی سکول کے مرکزی گیٹ کے سامنے دھریجہ پرنٹر قائم ہوا اور سکول کے بہت سے طالب علم اسی سکول کے استاد بنے اور اس حوالے سے ارشاد امین اور بھائی منیر احمد دھریجہ سے گزری یادوں کو یاد کیا جاتا۔ ارشاد امین کے والدین بسلسلہ روزگار سعودی عرب مقیم تھے، تعلیم کے بعد ارشاد امین کچھ سال سعودی عرب رہے، واپسی پر انہوں نے سرائیکی ادب و ثقافت کی ترویج میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، 1983ء میں اپنے شہر چاچڑاں شریف میں ادبی ثقافتی کانفرنس کرائی، جس میں وسیب کے نامور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے شرکت کی، چاچڑاں شریف عظیم سرائیکی شاعر خواجہ فریدؒ کا مسکن ہے اور خواجہ فرید کی پیدائش بھی چاچڑاں شریف میں ہوئی، اسی بناء پر یہ سرزمین تصوف، معرفت اور ادب و ثقافت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہے۔ یہ شہر دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے، ارشاد امین نے کانفرنس کو خواجہ فرید کانفرنس کا نام دیا۔ یہ کانفرنس ایک لحاظ سے سرائیکی تحریک میں سنگ میل ثابت ہوئی، سرائیکی لوک سانجھ کا قیام عمل میں آیا تو ارشاد امین ابتدائی دنوں سے لوک سانجھ کے ساتھی تھے، ارشاد امین کا تعلق پہوڑ برادری سے تھا، پہوڑ برادری کے سب پڑھے لکھے لوگ ہیں، وسیب سے محبت کرتے ہیں، اسی بناء پر مٹی کی محبت ارشاد امین کی سرشت میں شامل تھی اور انہوں نے چاچڑاں شریف کی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کو اجاگر کرنے میں وسیب کے وڈیروں اور گدی نشینوں سے بھی بڑھ کر کردار ادا کیا۔ شاعر نے سچ کہا : مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے وہ قرض اتارے جو واجب بھی نہیں تھے ارشاد امین کا تعلق ترقی پسند تحریک سے تھا، سرائیکی تحریک کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سے بھی اُن کی وابستگی تھی، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت نے اُن کے ذہن پر بہت اثرات چھوڑے، جب بھی ملتے تو کہتے کہ اب یہاں رہنے کو دل نہیں چاہتا۔ ارشاد امین نے دہلی میں ہونے والی عالمی سرائیکی کانفرنس میں بھی شرکت کی اور سعودی عرب میں بھی تقریبات منعقد کرائیں، لاہور میں سرائیکی پبلیکشنز کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اس ادارے نے معروف لکھاری اسماعیل احمدانی کا صدارتی ایوارڈ یافتہ ناول ’’چھولیاں‘‘ شائع کیا اور خواجہ دیوان فریدؒ کا دیوان بھی اسی ادارے کی طرف سے شائع ہوا۔ ارشاد امین نے اپنے ادارے کی طرف سے سہ ماہی سرائیکی رسالہ ’’پارت‘‘ کے نام سے شروع کیا جس کے شمارے سرائیکی ادب کا بہترین سرمایہ ہیں، ارشاد امین مختلف اخبارات اور جرائد کیلئے لکھتے رہے، بعدازاں لاہور سے شائع ہونیوالے رسالے ہم شہری سے وابستہ ہوئے اور لاہور کے ایف ایم 103سے اُن کی مستقل وابستگی رہی۔ارشاد امین یادوںکا ایک جہان ہے، انہوں نے اپنی جنم بھومی چاچڑاں خان پور کے علاوہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بہت وقت گزارا ، دھریجہ نگر کی سرائیکی کانفرنس میں ارشاد امین کے خطاب کا آج بھی وسیب کے لوگ حوالہ دیتے ہیں۔ خان پور کے بعد ہم نے روزنامہ جھوک سرائیکی 17 نومبر 1994ء کو ملتان سے شروع کیا، کچھ عرصہ بعد ملتان سے ارشاد امین نے بھی سرائیکی اخبار روزنامہ سجاک ملتان سے شروع کیا، ملتان سے نذر بلوچ نے روزنامہ سانجھ کا ڈیکلریشن حاصل کیا، لاہور سے سانول، ڈیرہ غازیخان سے سرائیکی کائو اور احمد پور شرقیہ سے جاگ سرائیکی ، کراچی سے کوک کے نام سے اخبار شروع ہوئے، ہم بہت خوش تھے کہ پاکستان میں انگریزی، اردو اور سندھی پرنٹ میڈیا کے ساتھ سرائیکی پرنٹ میڈیا کا وجود بھی بن رہا ہے۔ ارشاد امین کو والدین نے اخبار کیلئے سعودی عرب سے جو سرمایہ بھیجا تھا وہ بھی ختم ہو گیا، ادارہ مقروض ہو گیا اور ارشاد امین مشکل حالات کا شکار ہوئے، اس دوران جھوک بھی گردش ایام کا شکار ہوا، اس دن سے لے کر آج تک ہم سرائیکی کے اکلوتے اخبار کی حیات کیلئے لڑ رہے ہیں۔ روزنامہ سجاک کی بندش کے بعد ارشاد امین نے قومی اسمبلی کی ڈائریکٹری کے پراجیکٹ پر کام کیا، اس وقت کے سپیکر قومی اسمبلی احمد میاں سومرو نے اس پراجیکٹ کی منظوری دی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ارکان اسمبلی کے مکمل کوائف جمع ہو گئے ۔ ڈائریکٹری کیلئے ارشاد امین نے بہت سے ارکان سے انٹرویو کئے، جس کے باعث بڑے بڑے سیاستدانوں کے خیالات اور نظریات بھی اس کتاب کا حصہ بنے، قومی اسمبلی نے اس کتاب کو خرید کیا جس سے ارشاد امین کو جہاں مالی مشکلات پر قابو پانے میں مدد ملی، وہاں یہ کتاب اُن کی مقتدر حلقوں میں پہچان کا باعث بنی، عمر کے آخری حصے میں ارشاد امین مالی مشکلات کا شکار تھے، وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کی ہدایت پر پی ٹی وی سے بہتر معاوضے پر اُن کا کنٹریکٹ ہوا اور وہ ملتان آگئے، آنے سے پہلے انہوں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ لگائی کہ اب ملتان میں بہت عرصہ رہیں گے، مزہ آئے گا۔ پی ٹی وی ملتان میں انہوں نے جوائننگ دے دی، پیر سے کام شروع کرنا تھا کہ اتوار شام کو ارشاد امین کے دوست میاں منصور کریم کے پلازے میں اُن کی وفات ہو گئی، مرحوم نے لواحقین میں بیوہ اور ایک بیٹی چھوڑی ہے، بیوہ اور بیٹی کی خواہش پر ارشاد امین کی تدفین لاہور میں ہوئی ہے، پورا وسیب سوگوار ہے، ارشاد امین زندہ رہیں گے، وسیب کیلئے اپنی خدمات اور دوستوں سے خوبصورت یادوں کے ساتھ ، بابا بلھے شاہ نے سچ فرمایا: بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں گور پیا کوئی ہور