روس اور یوکرائن کے مابین 24فروری سے شروع ہونے والی جنگ کو اب سات ماہ سے زیادہ عرصہ ہوگیا ہے اگرچہ یوکرائن کی طرف سے روس کے حملے کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور کچھ محاذوں پر روسی افواج کو سخت مالی اور جانی نقصان کے ساتھ پسپائی کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے مگر اس جنگ میں اہم موڑ یہ آیا ہے کہ ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا میں روس نواز حکام نے بدھ 28 ستمبر کو دعویٰ کیا کہ الحاق کی غرض سے منعقد کیے گئے ریفرنڈم میں، وہاں کے باشندوں نے روس میں شمولیت کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دیا ہے۔ روسی صدر پوٹن نے جمعہ 30 ستمبر کو کریملن میں ایک شاندار تقریب میں ماسکو کے زیرِ قبضہ یوکرائن کے چارعلاقوں۔ ڈونیٹسک، لوگانسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا کو اِلحاق کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔ یہ ریفرنڈم فوجی قبضے کے تحت اور کسی بیرونی نگرانی کے بغیر ہوئے ہیں اور یوکرائن سمیت مغربی دنیا نے اِس ریفرنڈم کو "ناٹک" قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے تاہم بین الاقوامی تعلقات کے ماہرین کے نزدیک ریفرنڈم کے بعد اَب روس کو اِن علاقوں پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنے اور اِن علاقوں کا دفاع کرنے کا باقاعدہ جواز مل جائے گا۔ یوکرائن اور روس کے مابین جاری جنگ میں یوکرائنی اگرچہ اکیلے لڑرہے ہیں لیکن اَمریکہ سمیت مغربی دنیا کی طرف سے انہیں معاشی اور فوجی حمایت حاصل ہے۔ روس نے پہلے ہی اِس سال فروری میں ڈونیٹسک اور لوہانسک کو آزاد "عوامی جمہوریہ" کے طور پر تسلیم کر لیا تھا، جس کے بعد یوکرائن پر حملے کا مرحلہ شروع ہو گیا تھا۔ ماسکو نے 2014 میں باغیوں کے زیر قبضہ ریاستوں کی حمایت کرنا شروع کردی تھی، یاد رہے 2014 میں ہی روس نے کریمیا پر قبضہ کیا تھا– جو ایک ایسا اقدام تھا جس نے بعد میں ایک غیر تسلیم شدہ ریفرنڈم کی بھی راہ ہموار کی۔ اپنی جمعہ کی تقریر میں، پوٹن نے یوکرائن کے اِن نئے الحاق شدہ حصوں کے دفاع کے لیے اپنے اختیار میں "تمام" ذرائع کے استعمال کی بات کی، لیکن انھوں نے خاص طور پر جوہری طاقت کے استعمال کی دھمکی نہیں دی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ جاپان کے خلاف اس طرح کے ہتھیاروں کے اَمریکی استعمال نے ایک مثال قائم کی ہے۔ یہ سر پر منڈلاتا اِیک خطرہ ہے، لیکن براہِ راست نہیں جبکہ الفاظ کا اِنتخاب اِحتیاط سے کیا گیا ہے۔ دنیا ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر ہے جہاں ہمیں یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ ایک ایٹمی طاقت کیا کرتی ہے جب اس کی روایتی قوتیں اپنے فوجی مقاصد حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں؟ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایک جوہری طاقت عام طور پر ایسی بن جاتی ہے کیونکہ اس کے پاس اپنی قوتوں کی مضبوط روایتی بنیاد ہوتی ہے۔ پیوٹن کی سلامتی کونسل کے سربراہ نکولائی پاتروشیف نے جون میں دیئے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ روسی افواج یوکرائن میں "ڈیڈ لائن کا پیچھا نہیں کر رہی ہیں" جس سے یہ تاثر ملا کہ روسی صدر پیوٹن کے پاس یوکرائن میں اپنی جنگ کے لیے بہت زیادہ وقت (ٹائم لائن) ہے۔ اِس کے برعکس یوکرائن کو خدشہ تھا کہ بین الاقوامی دنیا موجودہ جنگ سے اکتاہٹ کا شکار ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بین الاقوامی برادری یوکرائنی حکومت پر دباؤ ڈال سکتی ہے کہ وہ پیوٹن حکومت کو مراعات دے۔ تاہم اَب حالات کا رخ تبدیل ہوتا نظر آتا ہے۔ روسی صدر پیوٹن کا یوکرائن سے چھینے گئے چار علاقوں میں جلد بازی میں منعقد کیا گیا ریفرنڈم یہ ظاہر کرتا ہے کہ روسی صدر اکتاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں اور اِس جنگ کا اَپنی شرائط پر جلد خاتمہ چاہتے ہیں جو موجودہ حالات میں ممکن معلوم نہیں ہوتا۔ اَگرچہ کئی مہینوں سے ڈونیٹسک، لوہانسک، کھیرسن اور زاپوریزہیا کو روس میں شامل کرنے کے بارے میں بات چیت ہو رہی تھی، لیکن ریفرنڈم کا اعلان جلدی کیا گیا جو کہ دو ہفتوں کے وقفے میں منعقد ہوا ہے۔ اِیک گرفتار طالبان جنگجو سے منسوب یہ کہاوت کہ "آپ کے پاس گھڑیاں ہیں، لیکن ہمارے پاس وقت ہے"۔ یوکرائن جنگ کے تناظر میں اِس جملے کو دوبارہ اِس طریقے سے پیش کیا جاسکتا ہے کہ "یوکرائن جنگ میں فیصلہ کن عنصر یہ ہوسکتا ہے کہ کِس فریق کے پاس وقت زیادہ ہے: ایک روسیصدر جو مغربی دنیا کے بقول مرنے تک اقتدار پر فائز رہ سکتا ہے، یا یوکرائنی عوام جو اپنی قومی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں"۔ اِس جنگ کا حتمی نتیجہ کیا نکلتا ہے اور کونسا فریق اَپنے اَہداف کس حد تک حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے؟ یہ تو وقت بتائے گا مگر اِس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ روس اور یوکرائن کے مابین جاری جنگ مستقبل کی عالمی سیاست میں روس کے کردار کو بھی متعین کرے گی۔ ماسکو ابھی بھی اس خیال پر قائم نظر آتا ہے کہ اپنی ریزرو اَفواج کو میدانِ جنگ کے اَگلے محاذ پر متعین کرنے اور اَپنے فوجی دستوں کے "جزوی متحرک ہونے" سے ان کی قسمت میں بہتری آئے گی اور جنگ کا نتیجہ انکی حمایت میں ہوگا۔ تاہم، یہ حقیقت اور افسانے کے درمیان کی حالت معلوم ہوتی ہے، روس ممکنہ حد تک زیادہ سے زیادہ طاقت کے ساتھ اہداف پر حملہ کرتا رہتا ہے، اور امید کرتا ہے کہ دسیوں ہزار بھرتی، ناقص جنگی سامان اور کم تربیت یافتہ افراد کی مدد سے وہ اِن پوزیشنوں کو مغلوب کر سکتا ہے جن کو لینے کے لیے اس نے اب تک جدوجہد کی ہے۔ لیکن دوسری طرف انہیں یوکرائن کی جدید فوج کا سامنا ہے، جسے مغربی ہتھیاروں اور مفید حکمت عملی کے مشورے دستیاب ہیں، جن کی مدد سے وہ روسی افواج کا کامیابی سے مقابلہ کررہی ہے۔ لیکن روس مسلسل ثابت کر رہا ہے کہ اس کی اصل فوج اپنے مقرر کردہ اہداف کے مطابق پرفارم نہیں کرسکی ہے۔ اور یہ ناکامی ممکنہ طور پر اس کی جوہری قوتوں کی تیاری کی عکاسی کرتی ہے۔ تاہم یہ سادہ اور قابلِ فہم بات ہے کہ یوکرائن کے مزید علاقوں پر باضابطہ طور پر قبضہ کرنے کا اقدام ماسکو کے پیچھے ہٹنے کے اِنکار کی نشاندہی کرتا ہے جبکہ جنگ کے اَہداف کے حصول میں ناکامی کے امکانات اور اپنی شکست کی خفت بچانے کے لیے روس اَیٹمی اَسلحے کا اَستعمال بھی کرسکتا ہے۔ اَگر اَیسا ہوا تو یہ تمام دنیا باالخصوص یورپی ممالک کے لیے سنگین تباہی کا باعث ہوگا۔