پاکستان کی تاریخ میں موجودہ الیکشن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں انہیں غیر معمولی حالات میں ہونے والے غیر معمولی الیکشن کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس وقت حسب روایت ہر طرف دھاندلی دھاندلی کا شور ہے اور ہارنے والی یا ہرائے جانے والی سیاسی جماعتیں بھرپور طریقے سے اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہی ہیں۔ اس ضمن میں ، میں یہ کہتا چلوں کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے روایتی اور فرسودہ ہتھکنڈوں کو چھوڑ کر نئی روش اور جدید رویے اپنانے کی ضرورت ہے۔ آپ جدید دنیا کی مثال اپنے سامنے رکھیں جہاں پالیسی کی بنیاد پر سیاست اور الیکشن مہم چلائی جاتی ہے۔ سیاسی جماعتیں اپنا آئندہ لائحہ عمل مکمل طور پر عوام کے سامنے رکھتے ہیں۔ دیگر مخالفین جماعتوں سے اختلاف کے باوجود ذاتیات پر حملے سے حتی الامکان بچا جاتا ہے۔ کردار کشی کی بجائے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انہیں اپنی پانچ دس سالہ منصوبہ بندی سے آگاہ کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اکثریت ابھی بھی اٹھارہویں صدی کے طریقے اپنائے ہوئے ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ہے لیکن معذرت کیساتھ یہاں بھی ہماری قوم اور سیاسی جماعتیں روایتی بھیڑ چال کا شکار ہیں۔ بحثیت قوم ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ کس طرح سے بیرونی ہاتھ ہماری اور ہمارے ملک کی تقدیر بدلنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے اور خصوصاً موجودہ الیکشن میں ایک خاص جماعت کے ٹرینڈز اور سوشل میڈیا پر دکھائے جانے والے کلپس اور ویڈیوز ہمیں ایک خاص سمت لے جا رہے ہیں۔ ہماری نوجوان اکثریت زمینی حقائق سے مکمل نابلد ہیں اور انکا نوے فیصد وقت سوشل میڈیا پر گزرتا ہے۔ ہم نے اگر کہیں غیر روایتی سیاسی طریقوں کو اپنانے کی کوشش کی بھی ہے تو وہ اندھا دھند تقلید کا شکار ہو گئی۔ اور بلاشبہ مستقبل میں اس کے نتائج خوش آئند نہیں ہونگے۔ یہاں میں واضح کرتا چلوں کہ میری ہمدردیاں کسی ایک جماعت کے ساتھ نہیں۔ اچھے برے لوگ ہر جماعت میں پائے جاتے ہیں لیکن جیسے گھن کیساتھ گہیوں بھی پستا ہے اسی طرح برے اور کرپٹ عناصر کی ساتھ اچھے اچھوں کی بھی شامت آتی ہے۔ بقول عزیزم آصف محمود کیا وجہ ہے سوشل میڈیا پر غزہ سے متعلق، فلسطین کی حمایت میں پوسٹ لگائی جائے تو نادیدہ ہاتھ انہیں فوراً ڈیلیٹ کر دیتے ہیں، اکاؤنٹ اڑا دیا جاتا ہے، لیکن کسی ایک جماعت کی مسلسل حمایت اور دوسری جماعتوں کی مسلسل مخالفت اور منفی رجحان پروموٹ کرنے پر ایسا کچھ نہیں ہوتا؟ ایک ہی سیاسی جماعت کا جادو سرچڑھ کر بولتا ہے اور لوگ اس کے سحر سے نکلنے کو تیار نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ گویا ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں زنگ آلود ہو چکی ہیں۔ ہماری اکثریت دوراندیشی اور معاملہ فہمی سے محروم ہو چکی ہے۔ ہم جذباتیت اور سیاسی وابستگی کی رو میں خس و خاشاک کی مانند بہہ جاتے ہیں اور حقیقت جانتے ہوئے بھی روگردانی کرتے ہیں۔ یہاں میں قائرین کرام سے اپنا ایک تجربہ بیان کرتا چلوں کہ تقریباً بارہ تیرہ سال پہلے ایک جرمن پروفیسر سے میٹنگ کے دوران انہوں نے ایک عجیب بات کہی اور وہ آج بھی ذہن پہ نقش ہے۔ وہ ایک پراجیکٹ کے سلسلے میں پاکستان میں موجود تھے اور اتفاقاً اسی روز گورنر سلمان تاثیر کو لاہور میں قتل کر دیا گیا۔ وہ جرمن پروفیسر کافی خوفزدہ ہوئے اور یہاں فنڈنگ کا ارادہ ترک کرتے ہوئے انہوں نے کہا اب ہم عرب سپرنگ پر پیسہ خرچ کریں گے ان دنوں عرب سپرنگ کی مہم چل رہی تھی۔ ہم عرب میں شام، عراق ، لبنان، یمن وغیرہ میں جمہوری آزادی کو فروغ دینے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔ اسوقت مجھے انکی بات غیر اہم اور غیر معقول لگی لیکن آج بارہ تیرہ سال بعد ان عرب ممالک کے حالات آپ سب کے سامنے ہیں۔ وہاں جمہوری حکومت ، جمہوری آزادی لانے کے چکر میں خانہ جنگی اور تباہی کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے صدام حسین، یاسر عرفات، حسنی مبارک اور دیگر عرب رہنماؤں کو جس طریقے سے ہٹایا گیا اسکا خمیازہ آج پوری عرب قوم بھگت رہی ہے۔ محلوں میں رہنے والے بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ میں نے سوشل میڈیا پر خود ایسی پوسٹس دیکھی ہیں جن میں ایک خاص سیاسی جماعت کے حامی پاکستان میں خانہ جنگی کی باتیں کر رہے ہیں کہ اب پاکستان میں یہ ناگزیر ہو چکی ہے اور اسکے بغیر تبدیلی ناممکن ہے۔ میں ایسے مائنڈ سیٹ پر انتہائی حیران و پریشان ہوتا ہوں کہ ہم اپنے ہی وطن کوکیسے خانہ جنگی کی آگ میں جھونک سکتے ہیں؟ ہماری معیشت تباہ حال ہے، سیاسی ڈھانچہ انتہائی لاغر و نڈھال ہے۔ نئی حکومت کی تشکیل کا عمل اپنی جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ایسے میں یہ باتیں مزید انارکی اور اختلافات کو ہوا دینے کے مترادف ہیں۔ یہ رویہ جلتی پر تیل ڈالنے کے برابر ہے جو ہم سب کو جلا کر راکھ کر دے گا اور ہاتھ کچھ نہیں آنے آئے گا سوائے دائمی تباہی و بربادی کے! موجودہ الیکشن میں اندرونی ہاتھ کیساتھ بیرونی مداخلت اور چھیڑ چھاڑ واضح دکھائی دیتی ہے اس ضمن میں اگر " کیمبرج اینا لیٹکس" کو مدنظر رکھا جائے تو کسی بھی ملک کی سیاسی تشکیل و تعمیر کے عمل میں بیرونی ہاتھ ملوث ہونے کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ یعنی کسی ایک ملک میں بیٹھے ہوئے با اثر لوگ کسی دوسرے ملک میں ہونے والے الیکشن اور سیاسی ڈھانچے کی تعمیر میں اپنا کردار ایسی مہارت سے ادا کرتے ہیں کہ استعمال ہونے والے کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ اور جب تک کسی کو خبر ہو پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے لہذا ایک قوم ہونے کے ناطے ہمیں انتہائی باشعور اور حساس ہونا پڑے گا۔ ہمیں آج کی نہیں اگلے پچاس سال کی پلاننگ کرنی ہو گی۔ بدقسمتی سے ہماری قوم اور سیاسی جماعتوں میں یہ اہلیت و قابلیت ناپید ہے کہ وہ جدید دور میں ہونے والی جدید طرز کی دھاندلی کو جانچ سکیں یا سمجھ سکیں۔ کس طرح انکی نوجوان نسل کو انہی کے خلاف استعمال کیا جارہا ہے۔ مستقبل میں اس ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والوں میں نفرت کے بیج کیسے بوئے جا رہے ہیں؟ چار سو مایوسی ہی پھیلائی جا رہی ہے ۔ہمیں مایوسی کی بجائے مثبت طرز عمل کو پروان چڑھانا چاہیے تاکہ ہم دیگر اقوام کی طرح ترقی کی منازل طے کر سکیں ۔ہمیں ذاتی مفادات سے باہر نکلنا چاہیے جب تک ہم ذاتیات کے خول سے باہر نہیں نکلتے تب تک مسائل جوں کے توں ہی رہیں گے۔ہم ترقی کی منازل طے نہیں کر سکیں گے ۔لہذا ہمیں اس سے باہر نکلنا ہو گا تاکہ ترقی کی منزل طے کر سکیں۔ آج کوئی بھی سمجھنے سے قاصر ہے لیکن خاک بدہن ، آئندہ پندرہ بیس سال بعد اگر ہمارے حالات مشرق وسطی جیسے ہوئے تو کیا کوئی ہمسایہ ملک ہمارے لیے اپنے بارڈرز کھولے گا؟ ذرا سوچیے کہ ہمسایہ ممالک میں کون ہمارا کتنا خیرخواہ ہے کہ پچیس سے تیس کروڑ کی آبادی کیلئے اپنے دروازے کھولے گا اور آخر کیوں؟