مکرمی ! ہم ہمیشہ بچوں کو جیتنا سکھاتے ہیں کبھی انہیں بتاتے ہی نہیں کہ کسی موڑ پر تمہاری ہار بھی ہو گی اور اسے تمہیں ایسے ڈیل کرنا ہو گا. اب ہمارے ہاں سب حالات کے رحم و کرم پر ہے، جو تو مضبوط اعصاب کے لوگ ہیں وہ گر گر کر سیکھ جاتے ہیں اور باقی خود کو ہار جاتے ہیں مگر یہ کتنا تکلیف دہ ہے یہ سبھی جانتے، آپ کی ذات فنا ہو جاتی ہے. ریجیکشن کوئی بری چیز نہیں، یہ تو آپ کو ایک موقع دیتی ہے کہ بھئی سوچ لو ابھی بھی وقت ہے جو تم نے فیصلہ کیا ہے، کیا وہ ٹھیک ہے. ریجیکشن آپ کیلئے نئے نئے راستے کھولتی ہے. خود کو reconsider کرنے کا موقع دیتی ہے. ہمیں سیکھنا ہے کہ اس ریجیکش اور درد کو کیسے چیلنج کیا جاسکتا ہے. اسکو ہتھیار بنا کر کیسے اپنی زندگی بدلی جاسکتی ہے. دنیا میں جس بھی شخص نے کوئی نام بنایا ہے یا کچھ کیا ہے اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایک درد تھا جیسے اس نے اپنی طاقت بنا کر خود کو امر کر لیا. تمہیں بھی اپنے ٹوٹے ہوئے دل اور درد کو اپنی طاقت بنانا ہے، اور تمہیں جھٹلانے والوں کو خودکشی، یا جلا کر نہیں بلکے خود کسی قابل کر کے دکھانا ہے. ضروری ہے کہ ہم ایموشنل انٹیلیجنس کو سمجھیں، اس پر بات کریں، اسے اپنے نصاب میں شامل کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں بیلنس آئے اور ہم سکون سے زندگی گزاریں۔ زندگی کسی ایک تجربے اور ایموشن کا نام نہیں ہے، یہ ایک مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے. جہاں کبھی محبتیں ملتی ہیں، تو کبھی چھین لی جاتی ہیں. وفا بھی ہے جفا بھی ہے. کبھی ہم سفر چھوڑ جاتا ہے تو کبھی اجنبی اپنا بن جاتا ہے. کبھی نوکری چھوٹ جاتی ہے تو کبھی یونہی مل جاتی ہے ۔ کبھی ماضی کی دردناک یادیں ستاتی ہیں تو کبھی مستقبل کے ڈرونے خواب ڈراتے ہیں۔ کہیں کوئی تنہا ہے تو کوئی رشتوں میں گرا۔ کوئی کالا ہے تو کوئی گورا، کوئی لمبا ہے تو کوئی چھوٹا۔ کوئی شادی شدہ ہے تو کوئی کنوارہ. کوئی بچہ ہے تو، کوئی جوان تو کوئی بوڑھا، یہ سب زندگی کے فیزز ہیں مگر کسی ایک لمحے یا فیز کی وجہ سے زندگی رکنی نہیں چاہتی. زندگی چلتی رہتی ہے اس لیے ہمیں بھی اس کے ساتھ چلنا ہے کبھی رو کر تو کبھی ہنس کر۔ (اسماء طارق گجرات )