اسلام آباد(خبر نگار) عدالت عظمیٰ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ آئین و قانون اور آرمی رولز میں فوجی افسر کی ازسر نوتقرری یا مدت ملازمت میں توسیع کا کوئی تصور نہیں ۔چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جیورسٹ فائونڈیشن کے ریاض حنیف راہی کی طرف سے دائر پٹیشن درخواست گزار کی عدم موجودگی کے باجود قابل سماعت قرار دیکر آرمی چیف کو مقدمے کا فریق بنایا اور آفس کو ہدایت کی کہ آرمی چیف اور دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرے ۔عدالت نے درخواست گزارکی طرف سے درخواست واپس لینے کی استدعا مسترد کی اور قرار دیا کہ ہاتھ سے لکھی گئی یہ درخواست رضاکا رانہ ہے یا نہیں ،اس کا تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن آئینی پٹیشن میں آرٹیکل 184/3کے تحت سپریم کورٹ کو حاصل آئینی اختیار کو استعمال کرنے کی استدعا کی گئی ہے ۔چونکہ معاملہ عوام کے مفاد اور بنیادی حقوق کا ہے اسلئے درخواست گزار کی ذاتی حیثیت بے معنی ہے ۔عبوری آرڈر میں آرمی چیف کی توسیع کا آرڈر معطل کر کے قرار دیا گیا کہ آئینی پٹیشن میں اٹھائے گئے نکات کا وسیع جائزہ لینے کی ضرورت ہے اسلئے آرمی چیف کو فریق بنا کر تمام فریقین کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے ۔سب کو سن کر کیس کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے سرکاری دستاویزات کی نقول ریکارڈ پر لاتے ہوئے موقف اپنایا کہ آرمی چیف کی3 سال کیلئے نئی تقرری ہوئی ہے ،نئی تقرری کی مدت موجودہ مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد شروع ہوگی ۔عدالت نے قرار دیا کہ توسیع کیلئے خطے کی سکیورٹی کی صورتحال کی اصطلاح مبہم ہے ۔اگر ملک کو کوئی خطرہ ہے توفوج یک جان ہوکر علاقائی سکیورٹی سے نمٹے گی ملک کو کوئی خطرہ ہے توفوج یک جان ہوکر علاقائی سکیورٹی سے نمٹے گی۔علاقائی سکیورٹی کو دیکھنا انفردای افسر کا کام نہیں ،اگر اس اصطلاح کو قبول کیا گیا تو فوج کا ہر افسر دوبارہ تعیناتی چاہے گا۔عبوری آرڈر میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہیں کر سکے ۔ اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع اور دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہو۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے پراسیس پر بھی سوالات اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ آرٹیکل 243کے تحت آرمی چیف کے تقرر کی مجاز اتھارٹی صدر مملکت ہے لیکن وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا ۔نوٹیفکیشن کے بعد غلطی کا احساس ہوا تو اسی روز وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی۔صدر کی منظوری کے بعد کابینہ سے پہلے منظوری نہ لینے کا احساس ہوا تو کابینہ سے بذریعہ سرکولیشن منظوری لی گئی لیکن کابینہ کے 25 ارکان میں سے صرف 11 نے آرمی چیف کو توسیع دینے کی تجویز کی حمایت کی اور کابینہ کی منظوری کے بعد معاملہ وزیر اعظم اور صدر مملکت کی منظوری کیلئے واپس نہیں گیا۔فوجی قوانین کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی معطل یا محدو د کیا جا سکتا ہے لیکن ریٹائرمنٹ سے پہلے دوبارہ تقرری ٹانگے کو گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے ۔قبل ازیں منگل کو کیس کی سماعت ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا ہمارے پاس ہاتھ سے لکھی گئی ایک چھٹی پہنچی ہے جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ اس درخواست کو سننے کا فورم نہیں، درخواست واپس لینا چاہتا ہوں، مقدمہ واپس لینے کیلئے ہاتھ سے لکھی گئی چھٹی پر تاریخ درج کی گئی نہ دستخط کیے گئے اور نہ ہی درخواست کیساتھ بیان حلفی لگایا گیا،وکیل آئے نہ ہی ایڈووکیٹ آن ریکارڈ پیش ہوئے ،ہمیں یہ بھی معلوم نہیں مقدمہ واپس لینے کی درخواست آزادانہ ذہن کیساتھ دی گئی یا نہیں؟ ہم ایسی درخواست قبول نہیں کریں گے ۔اٹارنی جنرل نے پیش ہوکر توسیع سے متعلق سرکاری دستاویزات کی نقول پیش کیں ،دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے کہا آئین کے تحت نوٹیفکیشن جاری کرنیکا اختیار وزیر اعظم کو نہیں بلکہ صدر مملکت کو حاصل ہے ۔اٹارنی جنر ل انور منصور خان نے کہا کابینہ سے منظوری کے بعد صدر نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔ چیف جسٹس نے کہا 19 اگست کو وزیر اعظم نے توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کیا،پھر اسی دن غلطی کا احساس ہوا توایڈوائس صدر مملکت کو بھیجی گئی،صدر مملکت نے نوٹیفکیشن جاری کیا،پھر20 اگست کو دوبارہ معلوم ہوا کابینہ سے منظور ی کے بغیر نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوسکتا،پھر 21 اگست کو کابینہ کی منظوری کے بعد نوٹیفکیشن جاری کیا گیا لیکن صدرسے منظوری پھر نہیں لی گئی۔اٹارنی جنرل نے کہا ریگولیشن پچیس آرمی رولز کے تحت کسی افسر کی ریٹائرمنٹ معطل بھی ہوسکتی ہے اور مدت ملازمت محدود بھی کی جاسکتی ہے ۔چیف جسٹس نے کہا جب ریٹائرمنٹ ہوئی نہیں تو معطل کیسے ہوسکتی ہے ،ریٹائرمنٹ سے قبل مدت ملازمت میں توسیع ٹانگے کو گھوڑے کے آگے باندھنے کے مترادف ہے ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے آزادانہ ذہن استعمال کیا یا نہیں؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد پچیس ہے ان میں سے گیارہ اراکین نے توسیع کے حق میں ووٹ دیا لیکن چودہ ارکان نے کوئی جواب نہ دیا،25 میں سے 14 ارکان کا کوئی جواب نہ دینا کیا اکثریتی فیصلہ ہے ،ہوسکتا ہے کا بینہ کا کوئی ممبر سوچ رہا ہولیکن اُسے سوچنے کا موقع دیے بغیر توسیع دیدی گئی،کیا جواب نہ دینے والے کابینہ ارکان کی رائے کو وفاقی حکومت ہاں سمجھتی ہے ،بظاہر طے شدہ قانون کی خلاف ورزی کی گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا قبل ازوقت ایسا کیا جاسکتا ہے جس پر چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیلئے بھیجی گئی سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا لیکن منظوری کے نوٹیفکیشن میں دوبارہ تعیناتی کا لفظ استعمال کیا گیا،حیرت ہے سمری توسیع کی بھیجی جاتی ہے لیکن منظوری دوبارہ تعیناتی کی ہوکر آتی ہے ،آئین اور فوجی ایکٹ میں نہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا اختیار ہے اور نہ ہی دوبارہ تعیناتی ہوسکتی ہے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا کابینہ کے امور پر عدالتوں میں سوال نہیں ہوسکتا ۔چیف جسٹس نے کہا آپ خود ستاویزات دکھارہے ہیں،تین سال کی توسیع کس قانون کے تحت کی گئی؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا توسیع کے معاملے پر قانون کو نظر انداز نہیں کرسکتے ۔ اٹارنی جنرل نے کہا توسیع کا نوٹیفکیشن معطل نہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا سماعت دوبارہ ہوگی آپ کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے ،نوٹیفکیشن معطل ہونے سے آپ کو فرق نہیں پڑے گا۔سماعت آج دوبارہ ہوگی۔بعدازاں عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کانوٹیفکیشن معطل کرنے کا تحریری آرڈر بھی جاری کردیا ۔چار صفحات پر مبنی تحریری آرڈر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے تحریر کیا ۔نیوزایجنسیوں کے مطابق چیف جسٹس نے درخواست کو ازخودنوٹس میں تبدیل کر دیا۔