ریکوڈک بلوچستان کے ضلع چاغی میں ایک مقام ہے جسے مقامی زبان میں رکو دک کہا جاتا ہے جس کا مطلب ریت کی چوٹی ہے۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ریت کی چوٹی کے نیچے قدرت نے سونے اور تانبے کے بیش قیمت خزانے چھپا رکھے۔کئی برس سے یہی ہوتا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کا شور اٹھتا ہے ،اس سے وابستہ روشن مستقبل کے امکانات پر خبریں آنے لگتی ہیں ،کچھ ہلچل اور سرگرمی ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر خاموشی کا ایک طویل وقفہ آتا ہے پھر ہمارے ہاں راوی بس چین ہی چین لکھنے لگتا ہے۔ اس چین کا دوسرا نام آپ جہالت اور پسماندگی بھی رکھ سکتے ہیں۔کیونکہ ہم کان کنی کی جدید ٹیکنالوجی سے بے بہرہ لوگ ہیں جو اپنے گھر میں موجود سنگلاخ چٹانوں کے نیچے پڑے خزانوں کو تلاش کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔اس کے لیے ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ تو بھلا ہو بیرون ملک کی ہائی پروفائل مائننگ کمپنیوں کا جو غریب ملکوں کے ذخائر اور وسائل پر گہری نظر رکھتی ہیں ورنہ ہم جیسے تو کبھی جان بھی نہ پاتے کہ ہمارے پاس یہ خزانے موجود ہیں۔ ریکوڈک کے خزانے کا پتہ چلانے میں پاکستانی حکومتوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اس پر تمام کام مائننگ کرنے والی عالمی کمپنیوں نے کیا ہے۔ اس وقت یہ منصوبہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والی دنیا کی امیر ترین مائننگ کمپنی بیرک گولڈ کے پاس ہے جو اس منصوبے پر دس ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرے گی۔ چاغی کے پہاڑوں میں قیمتی ترین ذخائر کی نشاندہی کم و بیش 30 سال پیشتر ہوئی تھی، یہ 1993 کا سن تھا۔نشاندہی کرنے والے بھی ہم خود تھوڑی تھے دنیا کی بڑی بڑی مائننگ کمپنیوں نے یہاں پہ سروے کیے اور پھر ہمیں بتایا کہ قرضے میں پھنسے ہوئے غربت زدہ لوگو، جہالت کے مارے ہوئے پاکستانیو تمہارے اپنے گھر میں قیمتی ذخائر موجود ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ دنیا کے مہنگے ترین ذخائر بلوچستان کے سرزمین پر موجود ہیں جو طرح طرح کی محرومیوں ، انتظامی کوتاہیوں اور طاقتوروں کی کرپشن کا ایک ایسا خوفناک امتزاج بن چکا ہے کہ اس کے دیرینہ مسائل کے حل کوئی سرا ہاتھ نہیں آرہا۔اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ ریکوڈک میں مہنگے ترین ذخائر چاغی کے علاقے میں موجود ہیں جہاں پر شرح خواندگی صرف 29 فیصد ہے۔ یہاں بے روزگاری ،غربت اور جہالت اپنی بدترین شکل میں موجود ہے۔ بلوچستان کے سرزمین اپنی سٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے بدامنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں رہتی ہے۔ بیرونی قوتیں یہاں اپنے مفاد کے لیے بدامنی کو فروغ دیتی ہیں۔بے روزگار ،ناخواندہ اور محروم طبقے کو بیرونی قوتیں آسانی سے اپنے سہولت کار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔بیرونی قوتیں جو بلوچستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتیں وہ کہاں چاہیں گی کہ ریکوڈک منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچے۔آئے روز یہاں دہشتگردی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔لا قانونیت اور بدامنی کی ایک فضا بنائی جاتی ہے تاکہ سرمایہ کاری کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں اور ان کے انجنیئرز اور ہنرمندوں کو خوف زدہ کیا جائے۔ 2022 میں ریکوڈک منصوبے پر کام کرنے والی کینیڈین کمپنی بیرک گولڈ کے سی او وزیراعلی ہاؤس بلوچستان میں آئے جہاں ان کی وزیراعلی بلوچستان کے ساتھ ساتھ مقامی سرداروں سے ملاقات تھی، بعد ازاں رکوڈک منصوبے کے حوالے سے اہم پریس کانفرنس تھی ۔اس موقع پر بیرک گولڈ کے سی ای او کو غیر معمولی سکیورٹی اور ایسا ہائی پروفائل پروٹوکول دیا گیا جو وہاں کے عینی شاہد صحافیوں کے مطابق صدر اور وزیراعظم کو بھی نہیں دیا جاتا۔ وزیراعلی ہاؤس کا سارا انتظام فوج نے سنبھال لیا تھا اور اس روز وہاں کے بیشتر اہلکاروں کی چھٹی کر دی گئی تھی۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے کالے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں نوشکی ہائی وے پر پنجاب کے نو مزدوروں کو صرف اس بنا پر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا کہ ان کے شناختی کارڈ پر پنجاب کا پتہ درج تھا۔ پنجاب سے مزدوری کے لیے جانے والے مزدوروں کے قتل کا یہ واقعہ نیا نہیں۔ غریب گھروں کے نوجوانوں کو بلوچ علیحدگی پسند تحریک کے دہشت گرد جس دیدہ دلیری سے موت کے گھاٹ اتارتے ہیں وہ بہت افسوسناک ہے۔ سانحہ نوشکی کی ذمہ داری بھی بی ایل اے نے قبول کی ہے۔اس کے بعد ایسے سانحات چند دن خبروں میں رہتے ہیں پھر فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ جن غریب گھرانوں کے نوجوان لڑکوں کو اپنے ہی ملک میں صرف اس لیے مار دیا جائے کہ وہ دوسرے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں انہیں انصاف دلانے کے لیے کہیں سے کوئی توانا آواز نہیں اٹھتی۔ اب 2024 میں ایک دفعہ پھر ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے سرگرمیاں اور خبریں سامنے آرہی ہیں۔ ان حالات میں جبکہ دنیا کی سب سے بڑی مائننگ کی کمپنی بلوچستان میں انویسٹمنٹ کرنا چاہ رہی ہے اور ایک مہنگا ترین پروجیکٹ لانچ ہونے جا رہا ہے تو سانحہ نوشکی پیش آیا۔ بلوچستان میں کچھ ایسے عناصر بھی کام کر رہے ہیں جو غلط فہمیاں پھیلاتے ہیں کہ بیرون ملک کی مائننگ کمپنیاں آکر بلوچستان کے وسائل پر قابض ہو رہی ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ مقامی کمیونٹی کے سرداروں اور اہم اہل اختیار کے ساتھ بھی بیرک گولڈ کمپنی اہلکاروں کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں ان کے تحفظات دور کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ایک دفعہ پھر ریکوڈک منصوبہ خبروں میں ہے۔ مئی میں سعودی عرب کے ولی عہد پاکستان آرہے ہیں۔ کئی دوسرے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ریکوڈک ایک مہنگی سرمایہ کاری کرنے کی خواہش مند ہے۔ ریکوڈک منصوبے میں دنیا کے کئی ملکوں کی دلچسپی ہے۔ سعودی عرب اس منصوبے کے شئیرز خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ہماری حالت بہت افسوسناک ہے ۔کئی دہائیوں سے ہم آئی ایم ایف سے قرضے لے کر اپنے بنیادی معاملات چلاتے ہیں، قرضے ہمارے پیروں میں زنجیریں ڈال چکے ہیں۔ بدبختی کی انتہا ہے کہ نہ یہاں تحقیق ہے نہ ٹیکنالوجی کہ ہم اپنے پاس موجود خزانے کو استعمال میں لا سکیں۔ دنیا ہماری جہالت اور بدبختی کو حیرت سے دیکھتی ہے اور ہمیں بتا تی ہے کہ اگر ان ذخائر کا استعمال صحیع معنوں میں کر لیا گیا تو پاکستان کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ بلوچستان کی محرومیاں دور ہو سکتی ہیں،کاش کہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو۔