وقت کی آنکھ مچولی… لاہور سے سہ پہر چار بج کر اکیس منٹ پر روانہ ہونے والی پرواز نو بج کر بیس منٹ پر مدینہ منورہ کی تاریخی و تعریفی سرزمین پر ننگے پاؤں اُتری۔ جوں ہی فون پہ مسلط فلائٹ موڈ ہٹایا تو گھڑیوں نے اچانک دو گھنٹے پیچھے کی ڈُبکی لگائی ، جو ریاضی، کاروباری اور زمینی اوقات کے اعتبار سے تو دو گھنٹے کا گھاٹا تھا کہ ہم نے پہلے ہی مشکل سے نو بجائے تھے، اب پھر سے سات کا ہندسہہمارے ساتھ ساتھ تھا لیکن قلبی کیلنڈر ایک سو بیس منٹ کا منافع دکھا رہا تھا کہ اس سچ مچ کی سوہنی من موہنی دھرتی پہ گزارے جانے والے وقت میں بونس کے دو گھنٹوں کا اضافہ ہو چکا تھا۔ یوں پہلا منافع تو وقت کا ہوا، ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ سامان لیتے لیتے مغرب کی اذانیں ہونے لگیں اور نمازِ عصر لاہور کی مقامی سرزمین میں ادا کرنے کے پانچ گھنٹے بعد بھی نمازِ مغرب مدینہ منورہ کی سرزمین پر بر وقت ادا ہوئی۔ جہاز میں فراز سے نشیب کی طرف آتے ہوئے ہم نے محسوس کیا کہ اِک ذرا سے جہاز کی اُترائی سے ہم تین چار سو لوگوں کے دل میں ہول اُٹھ رہے تھے ، پتہ نہیں ملکی معیشت، قومی وقار، ملی استحکام نیز تعلیم، صحت، انصاف، اخلاقیات، قانون، عوام الناس کے اطمینان کے کئی سالوں سے مسلسل زوال پر ہمارے حکمرانوں یا کارستانوں کا کلیجہ کیوں نہیں ڈولتا؟ حج کی تیاری کے دنوں میں ایک افسوس ناک بلکہ تکلیف دہ پہلو یہ بھی سامنے آیا تھا کہ ہمیںحج کی فیس کی ادائیگی اپنی قومی کرنسی کی بجائے ڈالر میں کرنی پڑی۔ المیہ یہ کہ وطنِ عزیز میں ڈالر چِیل کے گھونسلے میں ماس کی مانندغائب تھا، مزید المیہ یہ کہ چِیلیں ساری کی ساری پھر سے گھونسلے پہ قابض… حکم یہ تھا کہ کسی عزیز یا دوست سے کہہ کے باہر سے ڈالر منگوائے جائیں (جو ظاہر ہے ہمارے حکمرانوں کی نیتیں بھانپ کر ہاتھ کھینچ چکے تھے) اور انھیں روپوں میں ادائیگی کر دی جائے۔ اس سے نہ صرف آئے دن افغانستان کے راستے ڈھیروں ڈھیر ڈالر ایکسپورٹ کی خبروں پہ یقین آ گیا بلکہ ہمارا اصل دکھ یہ بھی تھا کہ ہماری ہر چیز اتنی سستی اور بے توقیر ہو گئی ہے کہ ہمیں اپنے دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے بھی بیرونی کرنسی کا دست نگر ہونا پڑا۔ اوپر سے یہ خدشات کہ کہیں ہماری یہ نیکی بھی سوئیزر لینڈ، لندن کے دریاؤں میں تو نہیں ڈال دی جائے گی؟ ہماری ایک شاعرہ نورین طلعت عروبہ نے اس زوال کی وجہ یوں بیان کی تھی: چور مامور ہوئے شہر کی دربانی پر رونا آتا ہے اس انداز کی نگھبانی پر لوگ مہنگائی کو روتے ہیں مگر حیرت ہے کچھ بھی کہتے نہیں انسان کی ارزانی پر مدینہ ایئرپورٹ پر ہی حاجیوں کو ایس ٹی سی کی مفت مقامی سِموں سے نوازنے والوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ عرب کے مضافات سے آئے نوجوان والنٹیر ہمارا پاسپورٹ دیکھتے ہی ہمارے نام پہ کھل جا سِم سِم کا عملی مظاہرہ کر رہے تھے۔ سعودی حکومت کے معقول انتظام کی وجہ سے ہم نے یہ مرحلہ پلک جھپکتے میں سر کر لیا۔ سعودی سِم کا حصول اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگلے دو ہفتے ہمیں اسی سم کی روشنی میں رابطوں اور راستوں کو تلاش کرنا تھا کیونکہ اپنے وطن میں چتر چتر کرتی ہماری مقامی سِمیں یہاں گونگے کا گڑ کھائے بیٹھی تھیں۔ مدینہ ایئرپورٹ پر ہی پہلے سے متعین شدہ چھے لش پش کرتی ائیر کنڈیشنڈ بسیں ہماری منتظر تھیں۔ ہمیں لاہور ایئرپورٹ پر جو تعارفی کارڈ ملے، ان پر سب کی بس کا نمبر بھی درج تھا۔ ہمارے گروپ کے حصے میں چھے نمبر بس آئی۔ یہیں اپنی اپنی سیٹ کا بھی تعین ہو گیا۔ اگلے چودہ دن کسی افرا تفری، تاخیر یا بے ترتیبی سے بچنے کے لیے ہر طرح کے سفر میں ہمیں اسی تقسیم یا الاٹمنٹ کو مدِنظر رکھنا تھا، سب کی سہولت بھی اسی میں تھی۔ اس طرح ہم پاکستانی رِیت کے مطابق ہر بار ’سِیٹ مَلّنے‘ کی دھکم پیل سے بچ گئے۔ بس کے ’پائلٹوں‘ نے اپنی اپنی بس کے مسافروں سے پاسپورٹ لے کر ایک بیگ میں محفوظ کیے اور گنتی پوری کرنے کے بعد ایک ساتھ مسجدِ نبوی کی جانب دوڑ لگا دی۔ اس مختصر سفر میں بھی منزل تک جاتے جاتے منرل واٹر، ٹھنڈے جوسز وغیرہ سے تواضع کا سلسلہ جاری رہا۔ اگلے تین دن کیلئے مسجدِ نبوی کے آس پاس اور ہلٹن بلکہ عربی میں ہلتیون کے عین سامنے ’شھد المدینہ‘ میں کمرہ نمبر 620 ہمارا مسکن ٹھہرا۔ تازہ تازہ شادی شدگان اور جاپان پلٹ طلحہ، حمزہ میرے رومیٹ قرار پائے۔ ان کی دلہنیںزنانہ رُوم میں تھیں۔سب کو بخوبی علم تھا کہ حج، صبر اور برداشت کا نام ہے۔ ابھی جنوری میں ہمارا یہی فیملی گروپ عمرہ کر کے گیا تھا۔ ان کی وساطت سے ہوٹل کی خوبیوں سے بخوبی آگاہ اور مطمئن تھے۔ فرق یہ تھا کہ اس وقت میری جگہ، میری گھر والی ان کے ہمراہ تھی۔ تب یہ کوئی سترہ لوگوں کا گروپ تھا، جن میں بیگم سمیت چاروں بہنیں، متعدد بھانجے، بھانجیاں، بھتیجے، بھتیجیاں، بیٹی، داماد، بھاگ کے کوہِ اُحد اور جبلِ عرفات پہ چڑھ جانے والے چھے سالہ عائشہ اور پانچ سالہ محمد، حتیٰ کہ فکوکا جاپان میں اپنی چھوٹی جا نماز پہ رکوع و سجود کرنے اور تشہد پہ باقاعدہ انگلی کا اشارہ کرنیوالا ڈیڑھ سال کا عیسیٰ بھی کہ جسے لاہور سے جاپان میں وڈیو کال پہ اذان دیکر مسلمان کرنے کا سہرا بھی راقم کے سر ہے اور جو دورانِ عمرہ حاجیوں، عمراجیوں کو مسلسل لبیک اللھم لبیک کہتے سن سن کے اب بھی سارا سارا دن لَکَ لَکَ کرتا رہتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے خاندان میں یہ اچھی روایت مستحکم ہو چکی ہے کہ شادی سادگی سے کرو اور نئے شادی شدہ جوڑوں کو ہنی مون کے لیے کسی اور جگہ کی بجائے عمرے پہ بھیجا جائے۔ اس میں آؤٹنگ، شاؤٹنگ اور حرکت کے ساتھ برکت بھی شامل ہو جاتی ہے۔ کمرے کا چارج سنبھالتے ہی اطلاع موصول ہوئی کہ بارھویں فلور پہ بُوفے ڈنر تیار ہے، ساتھ یہ بھی سمجھا دیا گیا آیندہ ہر ظہرانہ اسی منزل پہ اور ناشتہ گراؤنڈ فلور پہ دستیاب ہوا کرے گا۔ ڈنر واقعی پُرتکلف تھا، تازہ اور مزے دار کھانوں کے بھاپ خیز تھال لے کے آتے باوردی سوڈانی بَیرے، رنگا رنگ جوسز اور بوتلوں کو گھیرے جس پر ہم پاکستانیوں کے میلہ گھومنیوں جیسے پھیرے، سبحان اللہ۔ یہ بات جہاز ہی میں طے ہو چکی تھی کہ مسجدِ نبویؐ اور بیت اللہ میں پہنچتے ہی پہلی اجتماعی دعا وطنِ عزیز کی بہتری کے لیے کی جائے گی کہ یا خدا! پون صدی بعد ہی ہماری فریاد سن لے اور اپنے محبوبؐ کے صدقے تیرے نام پہ حاصل کی گئی اس سرزمین کو اپنے حقیقی نام لیواؤں کے سپرد کر دے۔ البتہ جو پہلی انفرادی دُعا دِل کے نہاں خانے سے برآمد ہوئی، وہ یہ تھی: تیری سیرت پہ چلنے آیا ہوں اپنی قسمت بدلنے آیا ہوں تیری مسجد، تِرے مدینے میں تیرے قدموں پہ چلنے آیا ہوں خوب بھٹکا ہوں دنیا داری میں تِرے صدقے سنبھلنے آیا ہوں علم کا شہر ہیں مِرے آقا ان سے کچھ حرف پڑھنے آیا ہوں تجھ سا جینا نہ آ سکا مجھ کو یاں فقط ہاتھ مَلنے آیا ہوں میرا خِطّہ بھی مثل مکہ ہے مَیں ہوں پتھر، پگھلنے آیا ہوں