لاہور سے براہِ راست مدینے جانے والا یہ دو سو چوہتر نفو س کا قافلہ تھا، جسے انیس جون کو صبح دس بجے علّامہ اقبال ایئرپورٹ پہ پہنچنا تھا۔ کسی نے کسی زمانے میں میری اقبال سے وابستگی کا پوچھا تو عرض کیا تھا کہ فوری تعلق تو یہ بنتا ہے کہ علامہ اقبال ٹاؤن میں علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی کے پڑوس میں رہتا ہوں۔ اب اس میں علامہ اقبال ایئرپورٹ کا اضافہ ہونے چلا تھا۔ سرینے ایئرلائن کی یہ فلائٹ غالباً اتنے ہی مسافروں کی متحمل ہو سکتی تھی۔ ذکا الرحمن والوں کی انتظامیہ نے یہ حج گروپ سوچ سمجھ کے ترتیب دیا تھا تاکہ کسی ایئر ٹرانسپورٹر کو ’کلی سواری بھاٹی لوہاری‘ جیسی آوازیں لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ احمد ذکا صاحب اور ان کی فیملی سال ہا سال سے ایسے حج ٹرپ ترتیب دینے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس مقدس سفر میں کسی تاجر، سیاح حتیٰ کہ کسی دوسرے حاجی گروپ کی ملاوٹ بھی مناسب نہ سمجھی۔ گروپ ممبران کا تعلق ذکا فیملی کے علاوہ (جن میں ان کی نوے سالہ والدہ الماس ذکا بھی شامل تھیں) پاکستان کے مختلف شہروں کے علاوہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اومان، دبئی وغیرہ کے نسبتاً متمول افراد سے تھا، جنھیں رجسٹرڈ کرتے ہوئے پورے چودہ دن کے ہر ایونٹ کی تفصیل فراہم کر دی گئی تھی۔ تین جون کو مغلِ اعظم فورٹ میں ٹریننگ کے دوران احرام ، حج بیگ، کارڈز، چھتری، ویزہ، ٹکٹ وغیرہ کے ساتھ سفر کی مزید تفاصیل فراہم کر دی گئیں۔ بیٹے عانش احمد وِرک، دو بیٹیوں (نبیہہ احمد، ارفع احمد ) اور بہو اُسوہ نے دس بجے سے پہلے پہلے مذکورہ اقبالیے ہوائی اڈے کے استقبالیے پہ اُتارا۔ یہیں پہ میری سسرالی فیملی کے مزید سات افراد ( سلمیٰ اولکھ، زاہدہ اولکھ، فوزیہ رحمن سنگھیڑا، حمزہ اولکھ، طلحہ بسرا، ڈاکٹر حرا گل، ڈاکٹر راحمہ اولکھ) کو شیخوپورہ سے آ کے پہلے اپنے چھوٹے گروپ میں شامل ہونا تھا۔یعنی ہمارے آٹھ کے جزو کو 274 کے کل کا حصہ بننا تھا۔ ان میں پہلے نمبر والی دونوں میری بیوی کی بڑی بہنیں، تیسرے نمبر والی ان سب کی بھاوج اور ماموں کی بیٹی، چوتھے نمبر والا پہلی بہن کا بیٹا، پانچویں والا دوسرے نمبر والی بہن کا بیٹا، چھٹے نمبر والی پہلی بہن کی بہو اور بھانجی نیز چوتھے نمبر والے کی بیوی اور خالہ زاد، آخری والی دوسرے نمبر والی بہن کی بہو اور بھتیجی، تیسرے نمبر والی کی بیٹی اور پانچویں نمبر والے کی بیوی اور ماموں زاد۔ یعنی سات کے اس گروپ میں افراد کم اور رشتے زیادہ تھے۔ دو سگی بہنیں، دو بھانجے، دو داماد، دو خاوند، دو بیویاں، تین آپس میں نندیں بھاوج اور چاروں نوجوان آپس میں کزنز اور میاں بیوی اور مَیں بھی کسی کا بہنوئی، کسی کا انکل، بالکل وہی والا معاملہ تھا: تیتر کے دو آگے تیتر… تیتر کے دوپیچھے تیتر… آگے تیتر، پیچھے تیتر، بھیتر تیتر… بوجھو کتنے تیتر؟ اولکھ، پنجاب میں جاٹوں کی ایک شاخ ، جو میری سسرالی فیملی بھی ہے، کئی سال سے جن کا ایک قدم پاکستان اور دوسرا جاپان میں ہوتا ہے۔ دماغ کا کچھ پتہ نہیں کہ کب کہاں، کب کہاں ہوتا ہے؟ لوگوں کے بچے پیدا ہونے کے بعد ماما، پاپا، بابا سے بولنا شروع کرتے ہیں، ان کے جا جا جاپان سے بلکہ بعض تو ’پان‘ یہاں سیکھتے ہیں اور ’جا‘ وہاں جا کے۔ کچھ نے تو پیدا ہونا ہی جاپان میں پسند کیا ہے۔ ان کو کھاتے یا کھانوں کی باتیں کرتے دیکھ سن لیں تو لگتا ہے ان کا دماغ کسی تکنیکی غلطی کی وجہ سے سر کی بجائے معدے میں فِٹ ہو گیا ہے۔ میرا پہلا تعارف تیس سال قبل اس خاندان کے سربراہ نور محمد اولکھ سے شیخوپورہ میں ہوا تھا، نہایت شریف، بھلے مانس اور مرنجاں مرنج آدمی تھے۔ تمام عمر سادہ زندگی گزاری، تھوڑے وسائل میں چار بیٹیوں، تین بیٹوں کی سلیقے سے پرورش کی۔ مطالعے اور شعر و ادب کا گہرا ذوق و شعور و شغف تھا۔ موقع کی مناسبت سے عمدہ شعر سنانے میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ مجھے یاد ہے بارہ اکتوبر1999ء کو جب نواز، مشرف دھینگا مُشتی میں سیاست دانوں کے ساتھ مشیروں وزیروں کی پکڑ دھکڑ کی خبریں گرم ہوئیں۔ ان سے ملاقات پر صورتِ حال دریافت کی تو مسکراتے ہوئے فرمانے لگے: گروہِ عاشقاں پکڑا گیا ہے جو نامہ بر رہے ہیں ، ڈر رہے ہیں اپنے خاندان اور معاشرے کے دیگر نوجوانوں کی فی زمانہ نئی نئی خواہشات سنتے اور عجیب و غریب حرکات دیکھتے تو ایک نظم اُن کے گوش گزار کرتے: شوق دیاں ونگاں مینوں پوریاں نئیں آؤندیاں نہایت سنجیدہ آدمی تھے، ہمیشہ مطلب کی بات کرتے۔ایک دن مَیں ان کے گھر گیا تو کسی بات پہ مسکرا رہے تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے: یہ ہماری پڑوسن بھی انوکھی عورت ہے! مَیں نے ان کی زبان سے پہلی بار کسی خاتون کا شرارت آمیز تذکرہ سنا تو چونکا۔ جب مزید کریدا تو بتانے لگے کہ ہمارے گھر میں ہر روز ناشتے پہ گرما گرم بحث ہوتی ہے کہ اَج کیہ پکائیے؟، دو تین گھنٹے بعد جا کے کہیں کسی ایک بات پہ اتفاق ہوتا ہے۔ یہ عورت ٹھیک گیارہ بجے ہمارے گھر آکے پوچھتی ہے، تُسی اَج کیہ پکا رئے او؟ اور چپکے سے جا کے وہی کچھ بنا لیتی ہے… اس بات پہ ہمیشہ بہت خوش ہوتے کہ میری چاروں بیٹیاں ایک ہی شہر میں بیاہی ہوئی ہیں اور مَیں دو گھنٹے میں پیدل سب کے ہاں سے ہو کے آ جاتا ہوں۔ لوگوں کو بھی بیٹیوں، بیٹوں کی اپنے قرب و جوار میں شادیاں کرنے کا مشورہ دیتے۔ چھبیس اکتوبر 2006ء کو عیدالضحیٰ کے روز دو بیٹیوں سے مل کے ہنستے کھیلتیواپس آ رہے تھے کہ اچانک حرکتِ قلب کے بے ترتیب ہونے کی وجہ سے راہیِ ملکِ عدم ہوئے۔ اس طویل تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اپنے ذہین قارئین کو بتانا مقصود ہے کہ موصوف دینی رجحان رکھنے کے ساتھ نہایت روشن بھی خیال تھے۔ قرآن سُنّت ان کی پہلی ترجیح ہوتی۔ جب ہم نے خاندان میں فضول رسومات ختم کرنے، اپنا تعارف کسی فرقے کی بجائے صرف اور صرف مسلمان کی حیثیت سے کرانے، بچوں کی شادیاں جلد اور برات، جہیز کے بغیر محض مناسب قسم کے ولیمے سے کرنے، شادی کے بعد ہنی مون کے لیے سوات، ناران کے بجائے عمرے پہ جانے جیسی تجاویز پیش کیں تو نہ صرف بہت خوش ہوئے بلکہ ان کے فوری نفاذ کا اعلان کر دیا۔ وہ دن اور آج کا دن، اس سفید پوش گھرانے میں خوشحالی یوں آتی چلی گئی جیسے فیض احمد فیض کے بقول ویرانے میں چپکے سے بہار آ جاتی ہے۔ ہر طرف حج اور عمرے کی بہار ہے، زندگیوں میں نکھار ہے۔ اب اس خاندان میں سات ماہ کی ایزل، ایک سال کے عیسیٰ سے لے کے ساٹھ سال کی باجی سلمیٰ تک سب حاجی، سب عُمراجی ہیں۔ بات جاٹوں کے تذکرے سے شروع ہوئی تھی۔ بتاتے چلیں کہ آٹھ تو ہم تھے ہی، پھر تعارف ہوتے ہوتے معاملہ آٹھ سے ساٹھ تک پہنچتا دکھائی دیا۔ کوئی گھمن، کوئی وڑائچ، کوئی سرا، کوئی اُپل، کوئی سندھو، کوئی وِرک، کوئی گل، کوئی اولکھ، کوئی بسرا… ہوتے ہوتے صورتِ حال یہ تھی کہ: جاٹ ہی جاٹ ہیں سرینے میں جا کے ٹھہریں گے یہ مدینے میں دو ہی ہفتوں میں لوٹ آئیں گے پہلے آتے تھے جو مہینے میں (جاری)