لاہور سے سرینے ایئر لائن کی پروازنمبر FR-2921, LHR-MED کو شیڈول کے مطابق 15:40 یعنی سہ پہر تین بج کر چالیس منٹ پہ روانہ ہونا تھا۔ ہم عین اس وقت اپنی سیٹ نمبر 34 سی پر براجمان تھے۔ ہوائی میزبانوں کی چستی و پھرتی کے باوجود 274 مسافروں کا دستی ساز و سامان اوپری خانوں میں سمیٹنے اور پیر و جوان و زناں کے دست و بازو، سیٹ بیلٹ میں جکڑنے میں کچھ وقت لگ گیا، لیکن اس کا 16:20 پہ سٹارٹ لے لینا بھی ہماری تاخیری اور تاریخی روایت کے حساب سے کمال کی بر وقتی محسوس ہوئی۔ چلنے سے قبل کچھ گھٹن سی محسوس ہوئی کیونکہ جہاز کے سپیڈ پکڑنے تک احتیاطاً ایئر کنڈیشنڈ آن نہیں کیے جاتے۔ زمین کی جکڑن (ٹیک آف) سے نکلتے ہی فضا خوشگوار ہونا شروع ہو گئی، کچھ تو شاید وطنِ عزیز کی قسمت پہ مسلط کچھ مکروہ چہروں سے دُوری کی وجہ سے، لیکن اس سے زیادہ اُس شہرِ بے مثال کی جانب رُخ ہونے کے سبب کہ جس کی گلیوں میں گدائی کرنے کی پوری پاکستانی قوم دعائیں مانگتی ہے۔ گدائی ویسے بھی ہماری گھٹی میں پڑ چکی ہے، اپنے حکمرانوں ہی کو دیکھ لیجیے، جو وہاں سرکاری عمرے اور وی آئی پی حج کی آڑ میں ریالوں سے فیض یاب ہونے جاتے ہیں۔ عام لوگوں سے متعلق بھی یہی مشاہدہ ہے کہ وہ اس شہرِ علم و حلم کی گلیوںمیں یا تو ’قصداً‘ بھٹکنے کی دعائیں مانگتے دکھائی دیتے ہیں یا اُس کوچے میں گداگری کی تمنا لے کے جاتے ہیں، مجال ہے کسی نعت، دعا، منقبت میں اس شہرِ پُرکمال سے علم، صبر، استقامت، سچائی، امانت داری، توحید سیکھنے کی تمنا نظر آئی ہو! راقم کو اُس سچ مچ کی پاک سرزمین پہ دو بار جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ دھرتی جو تریسٹھ سال، قیامت تک کائنات کے سب سے بڑے محسنؐ کے قدموں کے لمس سے مزین رہی، جہاں ان کا خون پسینہ بہا، جہاں شدید تر مخالفت و مشکلات کے باوجود وہ فرمانِ ربّی کے مطابق حکمت و بصیرت کے موتی بکھیرتے رہے۔ اپنے تو وہاں ہمیشہ سرشاری و دلداری کی کسی اور ہی کیفیت میں شب و روز گزرے۔ ایک قلم کار اور محقق ہونے کے ناطے ہر بار سب سے زیادہ اسی بات کی جستجو رہی کہ وہ دین جو ہم تک پہنچتے پہنچتے کئی طرح کی مقامی رسوم و عادات اور ذاتی و دنیاوی ضرورتوں، نیز فرقہ وارانہ تشریحات و تاویلات سے آلودہ ہو چکا ہے، جس کی بابت بیسویں صدی میں اُمتِ مسلمہ کے سب سے بڑے دانا، شاعرِ مشرق تک کو کہنا پڑا تھا: تُو اے مولائے یثربؐ ! آپ میری چارہ سازی کر مِری دانش ہے افرنگی ، مِرا ایماں ہے زناری ہندی تہذیب، انگریزی فیشن، سِکھا شاہی، مقامی مولویوں کی محکومی مجبوریاں، محدود علم، مختلف طبقات کے مفادات اور عوام الناس کی عاداتِ قبیحہ و قدیمہ نیز شیعہ،سُنی، وہابی، بریلوی، دیوبندی علما کی’مِری کہانی، تِری کہانی سے مختلف ہے‘ کے بیچوں بیچ قران و سُنت والا خالص دین تو اپنی رہتل میں خُردبین سے بھی دکھائی نہیں دیتا۔ لمحۂ موجود کے دیدہ ور شاعر نوید رضا کے بقول: مَیں خود کو دوسروں سے کیا جدا کروں بہت ملا جلا دیا گیا مجھے حجازِ مقدس میں سب سے زیادہ دیکھنے کی ضرورت تو یہ تھی کہ وہ دینِ کامل جو ربِ رحیم کی خاص مصلحت کے تحت ہم پر عربی زبان میں اُترا تھا، اسے مقامی زبان دانوں، عربی کلچر شناسوں کے موقف کے ساتھ دیکھا اور سمجھا جائے۔ تأمل کا مقام تو یہ تھا کہ بنجر زمینوں اور وسیع ریگستانوں کے باوجود، آج جس قوم پر خدا کی خاص الخاص رحمت ہے کہ دنیا بھر میں پیدا ہونے والا تازہ ترین اناج، توانا تر سبزیاں اور ذائقے دار پھل ہمہ وقت جن کی دہلیز پہ دھرے رہتے ہیں، اس کے پیچھے یقینا رسولِ رحمتؐ اور کتابِ حکمت کے فرمودات کی برکت ہے۔ اکثر لوگ اس رعونت میں دیکھے گئے ہیں کہ یہ عرب تو پینتالیس سال پہلے ہم سے چندہ مانگنے آیا کرتے تھے لیکن کبھی اس بات پہ بھی غور نہیں کیا کہ چندہ مانگنے والے تو بیت اللہ کی زیارت کی دعوت دینے اور توحید پہ مکمل طور پر کاربند ہونے کی بنا پر بے پناہ نوازے جا چکے ہیں لیکن چندہ دینے والوں پر کیا اُفتاد پڑی کہ آج انھی کے سامنے ہمہ وقت بوسیدہ خواہشیں، کاہیدہ حسرتیں، دریدہ دامن پھیلائے کھڑے رہتے ہیں۔ جہاز کی روانگی کے وقت شور سے پورا جہاز ’شور کوٹ‘ بنا ہوا تھا۔ پانچ گھنٹے میں منزل پر پہنچنے کی نوید سنائی گئی تو بعض لوگ اس فکر میں نظر آئے کہ یہ طویل دورانیہ کیسے کٹے گا؟ کیونکہ تمام دعائیں تو دس منٹ میں مانگی جا چکیں، اَسّی پچاسی فیصد نے سچ مچ یا جھوٹ مُوٹ کی نیند کا سہارا لیا۔ کچھ کھڑکی قریب لوگوں نے بے رنگ فضاؤں، خلاؤں میں گھورنے کا عزم باندھا۔ خدائے بزرگ و برتر کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مطالعے کی عادت کی نعمت سے نوازا ہوا ہے، جس نے کبھی ’بور ہونے‘ جیسے الفاظ سے واقف ہی نہیں ہونے دیا بلکہ کتاب دلچسپ ہو تو وقت کی کمی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ سفر جلد ختم ہو جائے تو کتاب سے عنقریب صلح کا وعدہ کر کے وقتی خلع لے لیتے ہیں۔ مقدس سفر پہ جائیں تو مجھے اندازہ ہے کہ سارا وقت عبادات اور دعاؤں میں نہیں گزارا جا سکتا۔ ہوٹل کے فارغ اوقات یا سونے سے قبل کتاب کا ویلیم لینا ضروری ہوتا ہے۔ اسی احساس کے پیشِ نظر کتاب کا زادِ راہ ہمیشہ میرے ہم رکاب ہوتا ہے۔ اب کے بھی تین عدد تازہ موصولہ کتب ڈاکٹر عزیز فیصل کی ’غلط پارکنگ‘ صولت رضا کی ’پیچ و تابِ زندگی‘ اور سعدیہ قریشی کی ’کیا لوگ تھے ‘ سامان میں رکھ لیں۔ اپنے عزیز تر فیصل کی ’غلط پارکنگ‘ تو آدھے ہوائی سفر ہی میں ہوا ہو ہو گئی۔ کتاب میں کوئی پارکنگ شاید غلط ہو گئی ہے لیکن اس میں ظرافت کی سپارکنگ کمال کی ہے۔ ہمارا یہ شاعر عجلتانہ شاعری کو بھی شگفتانے کا فن بخوبی جانتا ہے۔ بہت سے لوگوں کی طرح میری بھی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ سوگوار فضاؤں میں قہقہوں کے رنگ بھرنا کارِ سواد بھی ہے اور کارِ ثواب بھی۔ حفیظ تائب نے بھی سرکارِ دو عالمؐ سے یہی درخواست کی تھی: دے تبسم کی خیرات ماحول کو ہم کو درکار ہے روشنی یا نبیؐ جہاز کی پرواز کے گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی کھانے کی ہلچل مچی یعنی ’روٹی کھل گئی‘۔ شادی بیاہوں میں تو روٹی بے چاری بندھی ہوتی ہے، لوگ کھلے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگ بندھے تھے اور روٹی صحیح معنوں میں کھلی تھی۔ سبز فراک، کالے ٹراؤزر اور منی واسکٹ میں ملبوس فضائی میزبانیں، فراک کے فرنٹ پہ کنگرو نما کثیر المقاصد بڑی جیب لیے، رشتہ دیکھنے آئے اِمکانی سسرالیوں کے سامنے با سلیقہ بہو بیٹیوں کی طرح پلاسٹک ٹرے میں انتہائی مہذب انداز میں کھانا چُنتی ، پانی، مشروبات، چائے کا پوچھتی،چھوٹی چھوٹی بات پہ سمائل دیتی، معذرت کرتی نظر آئیں۔ مزے کی بات کہ جہاز میں کھانے والے ڈھائی تین سو لوگ موجود تھے، جو نہایت سلیقے سے کھا رہے تھے، جس کی بنا پر بہت سا کھانا بچ رہا۔ خیال آیا کہ اسی قدر کھانے والے اسمبلی میں بھی ہوتے ہیں۔ اگریہ لوگ بھی ملک کو کم از کم تمیز اور سلیقے ہی سے کھا لیتے تو شاید کچھ نہ کچھ بچ رہتا!!!!! (جاری ہے)