کہتے ہیں چنگاریاں بھڑک اٹھیں تو پھر یہ ہی چنگاریاں مہیب شعلوں میں بدل جاتی ہیں اور شعلے بھڑکیں تو سب کچھ جل کر بھسم ہوجاتا ہے۔ خاکم بدہن ایساکبھی ہو ۔ خیبر سے لے کر کراچی تک جو آواز اٹھ رہی ہے اس پر صاحبان اقتدار کو کان دھرنا ہوں گے۔فوری طور پر مناسب اقدامات اور عوامی امنگوں کے تحت فیصلے نہ کئے گئے تو یہ "بل تحریک"ایسی تحریک میں نہ بدل جائے جب کوئی بھی دوا کارگر نہ ہو۔بجلی کے بلوں میں بھاری بھرکم اضافے اور ٹیکسوں کی بھرمار سے نالاں عوام سڑکوں پر نکل کر اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس احتجاج کے پیچھے عوام الناس کے ساتھ طویل نا انصافیوں کی کہانی ہے جو تنگ آمد بجنگ آمد میں بدلتی نظر آرہی ہے۔ صاحبان اقتدار بھی لوگوں کی مجبوریاں مختلف چینلز پر دیکھ رہے ہوں گے یا انہیں خبر دی جا رہی ہوگی۔ایسی ایسی خبر اور مجبوری دکھائی جا رہی ہے کہ ہر صاحب دل کا کلیجہ منہ کو آتا ہے۔لوگوں کی ماہانہ تنخواہیں اتنی نہیں ہیں جتنے بھاری بھرکم بل انہیں بھجوا دیے گئے ہیں۔کیا حکومتیں اس طرح چلائی جاتی ہیں۔ کہ غریب کا چولہا بھی بجھا دیا جائے۔ وہ جو یہ کہتے نہیں تھکتے تھے"دیپ جس کا محلات میں جلے،چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے،وہ جو سائے میں مصلحت کے پلے، ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں جانتا میں نہیں مانتا"۔وہ یہاں چوبیس کروڑ عوام کو بجلی کے جھٹکوں کے سہارے چھوڑ کر   ن کی کٹیا میں اندھیرا کرنے کے بعد گوروں کے دیس میں لینڈ کر گئے ہیں۔ جہاں خنک موسم ہے اور غریب عوام یہاں جھلسا دینے والی گرمی میں ان کی عوام کش پالیسیوں کا خراج ادا کر رہی ہے۔ خبر یہ بھی گرش کر رہی ہے کہ  پاور ڈویڑن نے گریڈ سترہ سے اکیس تک کے سرکاری افسران کی مفت بجلی کے خاتمے کی تجویز کا جھانسہ دے کر بڑی واردات چھپا لی گئی ہے۔ واقفان حال کا دعوی ہے کہ پندرہ ہزار ملازمین کی مفت بجلی ختم کرنے سے کوئی زیادہ  فرق نہیں پڑے گا بلکہ ٹیرف میں بڑے فرق کے لیے تمام ملازمین کی مفت بجلی سہولت ختم کرنا ضروری ہے۔یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ گریڈ سترہ سے اکیس کے پندرہ ہزار سے زائد ملازمین ماہانہ سترلاکھ یونٹس مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں گریڈ ایک سے سولہ تک کے ملازمین تینتیس کروڑیونٹ ماہانہ مفت بجلی استعمال کررہے ہیں جن کی تعداد 1لاکھ تہتر ہزارسے زائد ہے، یہ سرکاری ملازمین سالانہ دس ارب کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گریڈ سترہ سے اکیس کے ملازمین سالانہ ایک ارب پچیس کروڑکی بجلی مفت استعمال کر رہے ہیں جبکہ گریڈ ایک سے سولہ کے ملازمین ماہانہ چہھتر کروڑ تینتالیس لاکھ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ وزارت توانائی حکام کے مطابق گریڈ سترہ سے اکیس تک ملازمین کی مفت بجلی ختم کرنے سے ماہانہ انیس کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔مفت بجلی یونٹ ختم کرکے مخصوص رقم تنخواہ میں شامل کرنے سے یہ فرق اور کم ہوجائے گا۔ ادھر صورتحال  یہ ہے کہ دنیا انگلیوں کے پوروں پر سمٹ آئی ہے۔ ہاتھ میں پکڑے سگریٹ کے پیکٹ سے مشابہ موبائل فون سے بات چشم زدن میں دور افتادہ علاقوں تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ رائے عامہ اس حد تک استوار ہو چکی ہے کہ پچیس میں سے چوبیس کروڑ عوام بجلی کے مفت یونٹس اور پیٹرول کی بندر بانٹ کا خاتمہ چاہتی ہے۔بات اصولی طور پر درست معلوم ہوتی ہے۔ لوگوں کا غم و غصہ دیکھ کر نگران وزیر اعظم انوار الحق کا کڑ نے پانی و بجلی کی وزارت اور ان کے کرتا دھرتا افراد کی میٹنگ بلائی تھی ابھی تک ایسا کوئی اعلامیہ یا خبر سامنے نہیں آئی جو بجلی کے بلوں کے بارے ملک کے طول و عرض میں دہائیاں دینے والوں کے زخم پر مرہم کا کام کر سکے۔۔ عین ان ہی دنوں میں حکومتی زعما اور سینیٹرز کو کھلے لان میں چلرز کی ٹھنڈی ہواوں سے لطف اندوز ہوتے دکھایا گیا۔۔۔سوشل میڈیا پر اس تصویر نے ہر خاص و عام کے جذبات کو نہ صرف بری طرح مجروح کیا ہے بلکہ نفرت کی آگ کو مزید دو آتشہ کر دیا ہے۔۔۔ پاور ڈویژن کی نا اہلی ہے کہ آج تک کوئی ایسی سنجیدہ منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس سے لائن لاسز، چوری،اور با اثر افراد کی فیکٹریوں میں ملی بھگت سے بجلی کی کھپت کا سد باب کیا جاتا۔۔۔بلکہ آسان حل یہ ڈھونڈ لیا گیا کہ ان تمام بلوں کا بوجھ غریب عوام پر ڈال دیا۔۔۔ واپڈا کے فنانس ڈیپارٹمنٹ کی حد درجہ نااہلی یہ ہے کہ مساجد اور دینی مدارس میں جو بل بھجوائے جاتے ہیں ان میں بھی ٹیلی وژن فیس عائد ہوتی ہے۔۔۔۔اب کوئی بتلاو کہ ہم بتلائیں کیا۔۔۔ سوشل میڈیا پر یہ بات ہر خاص و عام کر تا نظر آتا ہے کہ نوے ہزار گاڑیاں،دو سو بیس ارب کا مفت پٹرول اور پانچ سو پچاس ارب کی مفت بجلی کی مراعات حاصل کرنے والی کون سی مخلوق ہے۔۔لوگ باگ تو یہاں تک کہتے نظر آتے ہیں کہ سرکاری گاڑیاں اور مراعات یافتہ طبقے کی گاڑیاں پیٹرول سے نہیں غریب عوام کے خون سے چلتی ہیں۔ اس غریب ملک میں اب یہ تماشا بند ہونا چاہیے۔ عوام کا مطالبہ ہے جتنی بجلی استعمال کی جائے بل بھی اتنا ہی آنا چاہیے۔بجلی تو سوغات کی طرح آئے اور بل تاوان کی صورت آئیں اب ایسا نہیں چلے گا۔خبر یہ بھی زبان زد عام ہے کہ حکومت ایک بار پھر پیٹرول کی قیمتیں بڑھانے جا رہی ہے۔سولہ اگست دو ہزار تیئس سے ڈالر کی قدر میں اضافے سے شرح مبادلہ میں کافی فرق پڑا ہے اس کے ساتھ ہی بین الاقوامی منڈیوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔توقع کی جا رہی ہے کہ اوگرا یکم ستمبر سے شروع ہونے والے آئندہ پندرہ دنوں کے لئے پیٹرول کے نرخ میں بارہ روپے فی لٹر اور ڈیزل کی قیمتوں میں چودہ روپے بیاسی پیسے فی لٹر تجویز کرے گی۔اگر ایسا ہوا تو یہ عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہو گا۔عوام پہلے ہی "نکونک" تنگ ہیں کہیں ایسا نہ ہو بہت دیر ہو جائے۔زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔