سوشل میڈیا معاشرتی بگاڑ کا سبب بنا ہے یا نہیں؟ یہ بحث الگ ہے۔ ہم اس وقت اس نکتے پر دھیان مرکوز کر رہے ہیں جس کی حقیقت سے انکار کرنا بہت مشکل ہے۔ کیاہم اس بات پر اتفاق نہیں کرینگے کہ سوشل میڈیا ان سماجی گندگیوں کے ابال کا سبب بنا ہے جو اب تک ہمارے معاشرے کی نظروں سے اوجھل تھیں۔ اگر اس سلسلے میں ہم کوئی لسٹ بنانا چاہیں تو وہ بہت طویل ہوجائے گی۔ میں اس وقت بہت ہی جلے دل کے ساتھ صرف ایک برائی کی طرف دھیان مبذول کروانا چاہتا ہوں ۔ وہ برائی بے حیائی کی سب سے قبیح صورت ہے اور ہم چا ہیں بھی تو اس بدصورتی سے نظر نہیں چرا سکتے۔ یہ برائی آج کل سندھ کے نہ صرف سوشل بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بھرپور انداز سے چھائی ہوئی ہے۔ ہماری بچیوں کو بہیمانہ طریقے سے ہراسمنٹ کا شکار بنایا جا رہا ہے، سندھ کے تعلیمی اداروں کے گرلز ہاسٹلز کے کمروں سے یونیورسٹی کی طالبات کی پنکھے سے لٹکی ہوئی لاشوں کا ملنا معمول ہوگیا ہے اور چند روز قبل ایک سندھی لڑکی میڈیا پر آئی اور اس نے روتے ہوئے بتایا کہ سندھ یونیورسٹی جامشورو میں اس کو کچھ بدمعاشوں نے اس وقت اغوا کرنے کی کوشش کی جب وہ کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد لوٹ رہی تھی۔ لڑکی نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ بہت غریب گھر سے ہے اور خاندان والوں نے بڑی قربانی دیکر اس کو یونیورسٹی کی تعلیم دلوائی مگر اب ان حالات کی وجہ سے اس کا مزید پڑھنا ناممکن ہوگیاہے۔ ابھی جامعہ سندھ کے حوالے سے اس نیوز اسٹوری کی تفصیلات آ رہی تھیں کہ آصف زرداری کے آبائی شہر نواب شاہ سے پیپلز میڈیکل کالج کی طالبہ پروین رند نے میڈیا کی معرفت پکار کر کہا کہ اس کی عزت اور زندگی بچائی جائے۔ اس نے اپنے کالج کے مرد استاد پر الزام عائد کیا کہ وہ اسے بلیک میل کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اگر اس نے اس کے ساتھ دوستی نہیں رکھی اور ڈنرپر نہیں گئی تو وہ اسے فیل کردے گا۔ جب پروین رند نے اپنے اوپر ہونے والے اس ظلم کی شکایت سندھ کی وزیر تعلیم فریال تالپور سے کی تو اس شکایت کی پاداش میں انتظامیہ کی طرف سے اس بچی کو مبینہ طور پر زدو کوب کیا گیا ۔ یہ اسٹوری بی بی سی کی زینت بن چکی ہے۔ پروین رند کے بارے میں میڈیا میں آنے والی معلومات پڑھیں تو اس نے اپنے حق میں جو ثبوت میڈیا کو مہیا کیے ہیں ان میں ایک ثبوت وہ واٹس ایپ چیٹ بھی ہے جس میں اس کا ٹیچر اسے اپنی ناجائز فرمائش پوری نہ کرنے کی صورت میں دھمکا رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اس وقت تم بھلے نہ آؤ مگر فیل ہونے کی صورت میں تو ضرور آؤ گی۔ ایسی گفتگو پڑھ کر ہر باضمیر شخص کو ایک طرح کی گھن محسوس ہوتی ہے اور اس صورتحال میں ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ ہم کس معاشرے میں جی رہے ہیں؟ ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہمارے تعلیمی اداروں کا حال ایسا ہوجائے گا؟ وہ تعلیمی ادارے جن کے سربراہ کبھی علامہ آئی آئی قاضی جیسے عالمی سطح کے اسکالر اور مفکر ہوتے تھے؛ اب وہاں سیاسی سفارشوں پر ایسے افراد مقرر کیے جاتے ہیں جن کے کرتوت سوشل میڈیا پر گندگی بن کر تیر رہے ہیں اور سندھ میں احتساب نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ ان حالات کو کس طرح تبدیل کیا جائے؟ ویسے تو معاشرے کا ہر ادارہ بہت اہم اور بیحد ضروری ہوا کرتا ہے مگر جہاں تک تعلیمی اداروں کا سوال ہے تو تعلیمی ادارے معاشرے کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ کیا ہم اپنے ذہن ساز اداروں میں اس قسم کی سوچ کو پنپنے دیں کہ عزت اور وقار کچھ نہیں ہوتا؟ کیا ہم اپنی بچیوں کے حوالے سے اس خوف میں رہیں کہ وہ جہاں پڑھنے گئی ہیں وہاں ان کی عزت اور زندگی محفوظ نہیں ہے؟ کیا ہم اپنی بچیوں کو درسگاہوں میں نہیں بلکہ ان خطرناک خانہ جنگی والے ماحول میں بھیج رہے ہیں جہاں حفاظت کا یقین دلانا ممکن نہیں ہے۔اگر ہمارے تعلیمی اداروں کے حالات اس طرح ہی رہے تو پھر ہماری بچیاں تعلیم کا حق کہاں حاصل کریں گی؟ ہراسمنٹ کا لفظ کبھی ہمارے لیے بہت اجنبی اور باہر سے آنے والا لفظ تھا۔ اس لفظ کے بارے میں ہم سوچا کرتے تھے کہ اس لفظ کے تصور کو اپنی مقامی زبانوں میں کس طرح پیش کریں؟ کیوں کہ ہمارے معاشرے میں اس قسم کا تصور بھی نہیں تھا مگر اب حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ جس چیز کا کبھی تصور بھی محال تھا اس چیز پر آج کل عمل ہو رہا ہے اور وہ عمل بھی اس طرح سے ہو رہا ہے کہ ہم ایک طرح کی عدم تحفظ کی کیفیت سے دوچار ہوگئے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم جس راہ پر چل رہے ہیں اس کی منطقی منزل کیا ہوگی؟ کیا ہم اس طرف بڑھ رہے ہیں جس طرف ہمارے تعلیمی ادارے ہماری بچیوں کے لیے’’نوگوایریا‘‘ بن جائیں گے؟ کیا ہم کو جبری طور پر پھر سے ان حالات کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جن حالات میںہم لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میںسوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ کیا ہم اپنی بچیوں کو انسان نہ سمجھیں؟ اس وقت پوری دنیا میں خواتین کو ہر شعبے میں نمائندگی مل رہی ہے اور پاکستان میں بھی قوم کی ماؤں اور بیٹیوںکی ہر طرح سے ہمت افزائی ہو رہی ہے مگر جب اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں تب ایسا لگتا ہے کہ ہماری تمام کوششوں پر پانی پھر رہا ہے۔ وہ جنسی درندے اور وہ نفسیاتی بیمار لوگ جو تعلیمی اداروں میں بچیوں کو خوفزدہ کر رہے ہیں ان کو احساس تک نہیں کہ یہ عمل نہ صرف خدا کی نظر میں گناہ ہے بلکہ تاریخ کی نگاہ میں بھی یہ نا قابل معافی جرم ہے۔ کیوں کہ اس منزل تک پہنچنے کے لیے معاشرے نے کتنی محنت کی ہے اور کتنے ہی لوگوں نے قربانیاں دی ہیں۔ اگر ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو ان جنسی بیماروں سے نہیں بچایا توتاریخ کا ایسا نقصان ہوگا جسکاازالہ کرنا کسی صورت میں ممکن نہیں ہوگا۔ اس وقت تعلیم اور تحقیق کے حوالے سے دنیا کے تعلیمی ادارے کمال کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ہمارا حشر یہ ہے کہ ہم کمال کرنے کے بجائے دن بہ دن زوال کی راہ کے مسافر بن چکے ہیں۔ کیا ہم اس کارکردگی کے ساتھ دنیاکا مقابلہ کریں گے؟ ہم نے ایک محفوظ معاشرے کا خواب دیکھا تھا۔معلوم نہ تھا کہ ایسے خوابوں کی تعبیریںاس قدر تلخ ہوتی ہیں؟ ہم کس منزل کے لیے چلے تھے اور کہاں پہنچ گئے ہیں؟ ہم جو کمال حاصل کرنے لیے آئے تھے؛ اب ہمارے دامن میں زوال کی راکھ نہیں تو اور کیا ہے؟