آج کل ٹرانس جینڈر حقوق بل کا ایک نکتہ زیر بحث ہے۔آزادانہ جنسی اور صنفی اظہار کے حامی سمجھتے ہیں کہ کسی فرد کو اپنی جنس طے کرنے کا اختیار ہونا چاہئے، اگر کوئی بابو خود کو بی بی قرار دے یا بی بی خود کو بابو بتائے تو سماج اس کے دعوے کو تسلیم کر لے ،اس سے شناخت کاکوئی ثبوت طلب نہ کیا جائے۔سماج کو اندیشہ ہے کہ یہ حق دے دیا جائے تو ٹرانس جینڈر حقوق کا بل ایک ہی صنف کے لئے آزادانہ جنسی میل ملاپ کا راستہ کھول دے گا۔پاکستان ایک حساس سماج ہے۔یہاں پر کسی بیرونی ایجنڈے کی سیاسی شکل قبول کی جا سکتی ہے لیکن حقوق کے نام پر بیرونی ایجنڈے کی پذیرائی ممکن نہیں۔معصوم ٹرانس جینڈر افراد کو دھوکہ دے کر سماج کے خلاف بغاوت پر اکسایا جا رہا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد سے ہمارا واسطہ جن چند شکلوں میں ہوتا ہے ان میں خوشی کی تقریبات میں ناچ، ٹریفک اشاروں پر کھڑے ہو کر بھیک مانگنا، مصروف شاہراوں کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں شام کے بعد ہونے والی ہلچل شامل ہے۔ چند برس سے تعلیم عام ہونے کی وجہ سے یہ لوگ باعزت روزگار کے مواقع حاصل کر رہے ہیں ۔میک اپ آرٹسٹ، فیشن ڈیزائنراورسماجی کارکن کے طور پر بہت سے ٹرانس جینڈر قابل قدر کام کر رہے ہیں۔یہ لوگ جب تک اپنے صنفی رجحانات کو اپنی ذات تک رکھتے ہیں سماج کو ان سے شکایت نہیں ہوتی۔یہ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ شاید کوئی رشتہ بھی بناتے ہوں لیکن مسئلہ جب سماج کے اجتماعی مفاد کے سامنے کھڑا ہوتا ہے تو یہ واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ ٹرانس جینڈر کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا جائے اور اس دوران عمومی اخلاقیات اور مذہبی اصولوں کی خلاف ورزی کا احتمال پیدا ہو تو اس نکتہ کی اصلاح کر دی جائے۔اصلاح کا یہ حق یاد رہے صرف ریاست کو حاصل ہے ۔گروہوں کو یہ اختیار دینے کا مطلب سماج میں انتشار پیدا کرنا ہو گا،حالیہ دنوں سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا پر ٹرانس جینڈر افراد کو اشتعال میں دیکھ کر لگتا ہے وہ اپنے ماں باپ کی جانب سے فراموش کئے جانے کا بدلہ سماج سے لینا چاہتے ہیں ۔وہ درست یا غلط ،اس بل کو اپنی آزادی اور حقوق کا ضمانت نامہ سمجھ بیٹھے ہیں۔اب ان کے سامنے کوئی عالم دین بیٹھے ،استاد آئے ، منتخب نمائندہ آئے یا کوئی بد قسمت اینکر پرسن ،ٹرانس جینڈر افراد ہر ایک کو اپنے حقوق کا غاصب سمجھ رہے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کی ایک صنفی شناخت یا صنفی اظہار ہوتا ہے جو اس جنس سے مختلف ہوتا ہے جو انہیں پیدائش کے وقت تفویض کیا گیا تھا۔ کچھ ٹرانس جینڈر افراد جو اپنی جنس بدل کر دوسری جنس اختیار کرنے کے لیے طبی امداد کی خواہش رکھتے ہیں ان کی شناخت ٹرانس سیکسوئل کے طور پر کی جاتی ہے۔ تھائی لینڈ ٹرانس سیکسوئل آپریشن کرانے کے لئے مشہور ہے۔ وہاں عیاشی کی غرض سے جانے والوں کے ساتھ کبھی یہ واردات ہو سکتی ہے کہ وہ جسے خاتون سمجھتے رہے وہ بعد میں ٹرانس جینڈر نکلا۔پاکستان اور بھارت میں نامکمل جنسی اعضا کے ساتھ پیدا افراد کو صرف برا نہیں سمجھا جاتا، لوگوں کی بڑی تعداد انہیں اللہ کا بر گزیدہ اور قابل رحم بھی خیال کرتی ہے۔مزارات ،مساجد اور کئی مقدس مقامات پر خدمت گار کے طور پر ٹرانس جینڈر نظر آتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر لوگ اپنی صنفی شناخت کو مختلف طریقوں سے ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے لباس، رویے اور طرزِ عمل کو اس صنف کے طور پر رہنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جسے وہ اپنے لئے صحیح محسوس کرتے ہیں۔ کچھ لوگ ہارمون لیتے ہیں اور اپنے جسم کو تبدیل کرنے کے لیے سرجری کر سکتے ہیں تاکہ یہ ان کی صنفی شناخت سے میل کھاتا ہو۔ کچھ ٹرانس جینڈر لوگ جنس کی روایتی سمجھ کو صرف "مرد" اور "عورت" کے درمیان تقسیم کرتے ہوئے مسترد کرتے ہیں، اس لیے وہ صرف ٹرانسجینڈر، صنفی، جنس پرست یا کچھ اور کے طور پر شناخت کراتے ہیں۔ٹرانس جینڈر لوگ اپنی صنفی شناخت میں متنوع ہوتے ہیں (جس طرح سے آپ اندر سے محسوس کرتے ہیں)، ان کے صنفی تاثرات یعنی جس طرح لباس پہنتے ہیں اور کام کرتے ہیں) اور جنسی رجحانات (جن لوگوں کی طرفیہ متوجہ ہوتے ہیں) کا مطالعہ کئے بنا ان کے حقوق کی بات کرنا قرین انصاف نہیں۔جب لوگوں کی تفویض کردہ جنس اور صنفی شناخت ایک جیسی ہوتی ہے تو انہیں سسجینڈر کہا جاتا ہے۔ لوگ اکثر صنفی شناخت کو جنسی رجحان کے ساتھ الجھاتے ہیں۔ ٹرانسجینڈر لازمی نہیں کہ ہم جنس پرست ہو،ایسا ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا۔ صنفی شناخت، چاہے ٹرانسجینڈر ہو یا سسجینڈر، اس بارے میں ہے کہ آپ کس وجودکے اندر ہیں بطور مرد، عورت، دونوں، یا ان میں سے کوئی نہیں۔ ہم جنس پرست، یا جنسی لحاظ سے سٹریٹہونا اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ آپ کس صنف کی طرف متوجہ ہیں اور آپ خود کو رومانوی، جذباتی اور جنسی طور پر کس کی طرف متوجہ محسوس کرتے ہیں۔ایک ٹرانس جینڈر فرد ہم جنس پرست، سٹریٹ، یا دونوں صنفوں کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے، بالکل کسی ایسے شخص کی طرح جو سسجینڈر ہے۔ اس کے بارے میں سوچنے کا ایک آسان طریقہ ہے: جنسی رجحان اس بارے میں ہے کہ آپ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ صنفی شناخت اس بارے میں ہے کہ آپ کون ہیں؟ نیشنل لائبریری آف سائنس امریکہ کی مشہور ویب سائٹ ہے جہان کئی طرح کی رپورٹس اور تحقیقی مواد دستیاب ہے، یہاں کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں، 62.4% ٹرانس خواتین نے طبی سہولت حاصل کرنے کے بعد جنسی خواہش میں کمی کی اطلاع دی۔ تریسٹھ فیصد ٹرانس خواتین نے کبھی یا شاذ و نادر ہی بے ساختہ اور جوابی جنسی خواہش کا تجربہ نہیں کیا۔ جنہوں نے ویگنوپلاسٹی کروائی تھی انہیںان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بے ساختہ جنسی خواہش کا سامنا کرنا پڑا جنہوں نے اس سرجری کا منصوبہ بنایا تھا لیکن ابھی تک اس سے نہیں گزرے تھے۔ تیس فیصد ٹرانس مرد کبھی یا شاذ و نادر ہی جنسی خواہش محسوس کرتے ہیں۔ سماج صنفی اظہار پر پابندی نہیں لگاتا ،ایسا ہوتا تو بیروزگاری کے باعث سڑکوں پر ہیجڑے بن کر بھیک مانگنے والے مرد کب کے گرفتار ہو چکے ہوتے ۔مسئلہ صنف کے جنسی اظہار کا ہے،اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ جسے مطالبہ کرنے پرعورت کی شناخت دی جائے وہ کل کلاں کسی عورت کو ہراساں کرنے میں ملوث نہ ہو گا۔ ٹرانس جینڈر کی ذیل میں ادھوری شناخت کے جتنے گروپ ہیں ان کی الگ الگ درجہ بندی کر دی جائے، ایسا کرنے کے لئے ماہرین نفسیات اور ڈاکٹر کا بورڈ معائنہ کرے ۔جو لوگ اس بورڈ کے معائنہ میں غلط بیانی کے مرتکب ہوں ان کو الگ کر دیا جائے۔پاکستانی سماج کی پیداوار کے ٹولز اب ہل ، ٹریکٹر اور صنعتوں کی مشینیں نہیں بیرونی قرضے بھی ہیں ۔نئے ٹولز نیا سماج بناتے ہیں ۔قرض دینے والے حکم دے رہے ہیں کہ فرد اگر اپنی صنفی شناخت بدل دے تو ریاست اسے تسلیم کرلے ۔کیا فرماتے ہیں دانشور بیچ اس مسئلے کے ؟