کس جہاں کی فصل بیچی کس جہاں کا زر لیا ہم نے دنیا کی دکان سے کاسہ سر بھر لیا لوگ فہم و آگہی میں دور جاتے مگر اے جمال یار تو نے راستے میں دھر لیا چلیے ایک شعر اور، کتنی خوش اسلوبیوں سے اس نے کاٹا یہ سفر۔ پائوں پڑنے والے ہی نے آخر اپنا سر لیا۔ پہلی اور آخری بات یہ کہ عوام کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں۔ وہ خاطر جمع رکھیں کہ انہیں جیسے تیسے گزر اوقات کرنا ہوگا مگر اس حکومت نے سارے معاہدوں کی نگرانی تو کرنی ہے۔ عوام کی تسلی اور تشفی اس سرخی سے ہو جاتی ہے کہ آئی ایم ایف نے بجلی بلوں میں ریلیف کے لیے حکومت کا اعلان مسترد کردیا ہے۔ گویا اس اوپر سے آئے فرمان نے ہماری خود مختاری کی اوقات بھی بتا دی ہے بلکہ ہم نے خود ہی اپنے آپ کو ایکسپوز کر دیا ہے۔ عوام کا نفسیاتی ٹریٹ منٹ جاری ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نیا مژدہ سنا دیا جاتا ہے اور بقول شوکت واسطی: بڑے وسوخ سے دنیا فریب دیتی ہے بڑے خلوص سے ہم بھی فریب کھاتے ہیں پہلے تیل سے بھرا روسی جہاز آیا تھا اور پھر وہ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑہ ثابت ہوا کہ اسی نے ہمارا بیڑہ غرق کیا۔ کئی دن تک اسی روسی جہاز کے تیل سے گاڑی رواں رہی۔ خیالی پلائو اور احمقوں کی جنت کی سیر۔ مگر اب کے تو شاید بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ بتایا جارہا ہے کہ سعودیہ مشرق وسطیٰ سے پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری آئے گی۔ یہ بھی بتا دیا کہ یہ سرمایہ کاری دو سے پانچ سال میں آئے گی۔ وزیراعظم نے غیر ملکی نمائندوں سے گفتگو میں بیان کیاہے ۔ پتہ نہیں دل کیوں بول اٹھا‘ کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک۔ ظاہر ہے معاملات بہت تیزی سے بدل رہے ہیں۔ یہاں تو پل کی خبر نہیں: تھی تندو تیز کس قدر اپنی یہ زندگی کتنے ہی حادثات سر شام ہو گئے یہ تو بڑے بڑے پراجیکٹ ہیں ہم سے تو چھوٹے چھوٹے معاملات ہی نہیں سنبھالے جا رہے۔ ابھی دو روز قبل میں ایک مشہور حکیم محمود پکڑ کر کھڑے ہو گئے کہ ملتان روڈ کے حوالے سے بھی کچھ لکھ دیں۔ واقعتاً مجھے یہی خیال آیا کہ یہ ایک عوامی مسئلہ ہے کہ اعوان ٹائون کے باہر سے دونوں اطراف میں محکمے نے پیچ کھودے ہوئے ہیں اور کہیں کہیں سے سڑک اکھڑی ہوئی ہے۔ کئی ماہ سے ایسے ہی چل رہا ہے اور یہ انتہائی خطرناک کھڈے ہیں۔ کسی وقت بھی حادثہ ہو سکتا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ یہ سب کیا چل رہا ہے۔ ۔ اس کے علاوہ کھاڑک اور لیاقت چوک کے علاقے میں سڑک کا کام ڈیڑھ دو سال میں بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ ہمارے نگران وزیراعلیٰ بلکہ آپ مستقل ہی سمجھیں وہ پنجاب بھر میں طوفانی دورے کر رہے ہیں اور اخباروں میں ان کی پرفارمنس نظر بھی آئی ہے۔ کیا وہ لاہور کی سڑکوں سے نہیں گزرتے۔ چلیے ساتھ ہی میں آپ کو پیکو روڈ کا حال بھی بتاتا چلوں کہ پرویزالٰہی کے ہوتے ہوئے یہاں سڑک کا ایک حصہ توڑا کہ دوبارہ بنے مگر پرویزالٰہی کے زیرعتاب آتے ہی کام وہیں رک گیا۔ اور پھر یہاں جو کام رک گیا وہ شروع نہ ہوا۔ ابھی میں سپریم کورٹ کا پڑھ رہا تھا کہ کہا گیا ہے کہ پولیس اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ تو میں سوچنے لگا کہ کیا باقی ادارے اپنی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں۔ کیا وہ اپنے حلف کے تابع ہیں۔ خیر چھوڑیئے اس بات کو کہ بوریت ہی بوریت ہے۔ میں ایک ایرانی قصہ پڑھ رہا تھا کہ پاگل خانے میں انتہائی مہذب لوگوں کے ساتھ ایک صحافی کی ملاقات ہوئی تو صحافی ان کی باتوں پر دنگ رہ گیا کہ ایسے شائستہ‘ مہذب اور ایماندار لوگ پاگل خانے میں کیسے آئے۔ ان میں سے ایک سفید ریش بولے کہ بیٹا پریشان نہ ہو۔ ہم دو گروپ تھے۔ ایک دوسرے کوپاگل کہہ رہے تھے ہم اقلیت میں تھے دوسرے غالب اکثریت میں۔ لہٰذا انہوں نے ہمیں پکڑ کر زبردستی یہاں قید کردیا۔ بس یہ طاقت ہی کا کرشمہ ہے کہ سچ پا بہ زنجیر ہو جاتا ہے۔ پھر ہمیں پسند بھی تو یہی لوگ ہیں: کون کہتا ہے کہ جادو نہیں برحق لوگو میرا قاتل مجھے محبوب نظر آتا ہے عوام اچھے خاصے پریشان ہیں کہ وہ مسیحا ہوا کرے کوئی۔ اپنے دکھ کی دوا کرے کوئی۔ سب کو چھوٹے چھوٹے مسائل میں پھنسا دیا گیا ہے۔ ابھی صبح ہمارے ندیم خان ذکر کررہے تھے کہ بل ادا کرنے کے لیے بھی بینکوں سے باہر دو سو روپے کی پرچی کاٹ کر دی جاتی ہے کہ سہولت سے پیسے جمع ہو جائیں۔ اس کے بعد عباد صاحب نے بتایا کہ تمام جیلوں میں آپ اپنے آدمی سے ملاقات کے لیے کس کس جگہ پیسے دے کر جاتے ہیں وگرنہ ملاقات بھی ممکن نہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ سب لوٹنے اور مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے کمربستہ ہیں۔ چلیے ہمارے تیمور حسن تیمور کا ایک پیارا سا شعر دیکھئے: وہ سانپ اتنا حسیں تھا میں کھو گیا اس میں وگرنہ سانپ جہاں تھا وہیں خزانہ تھا اس سے مطابقت پر ایک اور شعر یاد آ گیا: اپنے مطلب کے سوا لوگ کہاں ملتے ہیں اب کے بھی سانپ خانے کے لیے آئے تھے میرا خیال ہے کہ شاکر شجاع آبادی پر کالم ختم کرتے ہیں: اساں اجڑے لوگ مقدراں دے ویران نصیب دا حال نہ پچھ توں شاکر آپ سیانا ایں ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ