سن 2023ء کے آخری مہینے کا آخری عشرہ چل رہا ہے اور 8دن کے بعد 2024ء کا سورج طلوع ہوگا۔ الیکشن شیڈیول کا اعلان ہو گیا ہے اور یہ بات کافی حد تک یقینی ہے کہ الیکشن آٹھ فروری کو ہو جائیں گے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی انتخابی مہم شروع کر دی ہے اور اس سلسلے میں آصف علی زرداری جنوبی پنجاب کا دورہ کر چکے ہیں اور آج کل بلوچستان کے دورے پر ہیں۔ پیپلز پارٹی میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں۔ تازہ ترین اضافہ نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا ہے۔ سرفراز بگٹی ان لوگوں میں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مقتدر حلقے ان کے پیچھے ہیں ۔ بگٹی کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے ساتھ کچھ لوگوں کو یہ تاثر ملا ہے کہ اگلی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی کی بھی ہو سکتی ہے۔جنوبی پنجاب سے مولانا حامد سعید کاظمی پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں اور آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب سے کچھ اور لوگ بھی پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ نواز بھی الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہے کافی حلقوں کے ٹکٹوں کا فیصلہ ہو چکا ہے اور باقی آنے والے دنوں میں ہو جائے گا۔ اگر نواز شریف الیکشن لڑنے کے اہل ہو جاتے ہیں تو پاکستان مسلم لیگ نون کی انتخابی مہم کافی زور پکڑ لے گی۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت انتشار کا شکار ہے لیکن گزشتہ دنوں انہوں نے جس طریقے سے ورچول جلسے کا انعقاد کیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔ اس جلسہ کو روکنے کے لیے طاقتور حلقوں نے جو ہتھیار استعمال کیا وہ بھی مثال نہیں ملتی ہے۔ پانچ گھنٹے تک پاکستان میں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم لوگوں کی رسائی سے دور رہے اور بہت زیادہ افواہوں نے جنم لیا حالانکہ اگر یہ اقدامات نہ بھی کیے جاتے تو اس جلسے سے کوئی بڑا طوفان نہیں آجانا تھا۔سننے میں آیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز کی لاہور کی ایک بہت اہم شخصیت الیکشن لڑنے سے معذوری کا اعلان کر رہی ہے اور پارٹی کے بڑے ان پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ الیکشن ضرور لڑیں۔ اسی طرح ملتان سے جاوید ہاشمی ایک بار پھر خبروں کی زیینت بنے ہوئے ہیں اگرچہ پاکستان مسلم لیگ نواز کا ٹکٹ تو ان کو نہیں مل رہا لیکن وہ کس حیثیت سے الیکشن لڑیں گے اور اگر وہ کامیاب ہو گئے تو قومی اسمبلی میں ان کا کردار کیا ہوگا یہ بھی بات بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اسی طرح چوہدری نثار بھی ابھی تک آزاد حیثیت میں ہیں انہوں نے بھی کسی پارٹی کا انتخاب نہیں کیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے ایک ایک حلقے سے تین تین چار چار امیدوار متوقع ہیں اب جو بچ جائے گا وہ الیکشن لڑ لے گا۔ امید ہے کہ جنوری کا مہینہ کافی بھرپور ہوگا۔ سردی کے ساتھ الیکشن کی گرمی اپنا رنگ دکھائے گی۔ الیکشن کی وجہ سے ملک کی اکانومی کا پہیہ بھی چل پڑتا ہے ہوٹل چائے خانے آباد ہو جاتے ہیں ٹرانسپورٹ کا بزنس بھی کافی فعال ہو جاتا ہے اور اسی طرح بینر اور پوسٹر بنانے والوں کے بھی وار ینیارے ہو جاتے ہیں۔اگر ملک میں 10سال الیکشن نہ ہو تو بہت سارے کاروبارماند پڑ جائیں۔بہت سارے پرنٹنگ پریس صرف اس وقت چلتے ہیں باقی سالاتنا کام نہیں ہوتا گزشتہ الیکشن بھی سوشل میڈیا پہ بڑے زور شور سے لڑا گیا تھا اور اس بار بھی امید کی جاتی ہے کہ یہ الیکشن بھی سوشل میڈیا پہ بہت زیادہ لڑا جائے گا اور سڑکوں سے زیادہ سکرینوں پے آپ کو رونق نظر آئے گی۔ جس طرح جب کوئی ٹورنامنٹ ہوتا ہے تو کچھ نئے کھلاڑی ہیرو کے طور پر ابھرتے ہیں اسی طرح امید کی جا رہی ہے کہ 2024ء کا الیکشن بھی کچھ نئے ہیرو پیدا کرے گا۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی طرف سے سب سے زیادہ اہمیت نواز شریف کے بعد مریم نواز کی ہے کہ وہ کس طریقے سے الیکشن کی مہم کو لیڈ کریں گی اور اپنے سپورٹر میں ایک نئی روح پھونکیں گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہو سکتا ہے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے بعد بے نظیر کی بیٹی کو میدان میں اتارے۔آصفہ بھٹو کی لانچنگ 2018ء کے الیکشن میں ہو ئی تھی لیکن امید کی جا رہی ہے کہ اس بار وہ الیکشن میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے پرانے چہرے غائب ہو چکے ہیں اب نہ آپ کو کہیں فرخ حبیب نظر آئے گا اور نہ عثمان ڈار نظر آئے گا اسی طرح کے پی کے سے پرویز خٹک بھی پی ٹی آئی میں نہیں ہوں گے اس دفعہ پی ٹی آئی کے جو مرکزی آل راونڈر ہیں وہ شیر افضل مروت ہیں انہوں نے کے پی کے میں پی ٹی آئی کے دو تین کنونشن بڑے اچھے طریقے سے آرگنائز کیے ہیں۔ جمیعت علماء اسلام کی وہی روایتی قیادت الیکشن میں نظر آئے گی۔ اسی طرح نیشنل عوامی پارٹی میں بھی کوئی نیا چہرہ نظر نہیں آرہا۔ پاکستان میں جب بھی الیکشن ہوتا ہے تو کچھ چیزیں صرف الیکشن میں نظر آتی ہیں۔جس طرح ہر بار جنوبی پنجاب کے صوبے کا نعرہ لگایا جاتا ہے 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی نے جنوبی پنجاب کے صوبہ کی بنیاد پر الیکشن لڑا اور پھر 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نے جنوبی پنجاب کے صوبہ پہ الیکشن لڑا اور 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی یہی نعرہ استعمال کیا۔ اب نظر آرہا ہے کہ جو نئی پارٹی بنی ہے جہانگیر ترین کی وہ جنوبی پنجاب کے صوبے کے نعرے کو استعمال کرے گی۔سندھ میں پیپلز پارٹی کے علاوہ مہاجر قومی موومنٹ دوسری بڑی طاقت ہے وہ الیکشن میں کس نعرے کو اپناتے ہیں یہ بھی دلچسپی کا باعث ہوگا۔