وفاقی دارالحکومت میں آج سے اکتیس سال پہلے اکتوبر1987 ء جب قدم رکھا اور نئی نئی صحافت شروع کی تھی تو جنرل ضیاء کی حکومت تھی انکے اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے درمیان سرد جنگ جاری تھی جو چند ماہ میںہی لڑائی میں تبدیل ہوگئی اور اوجھڑی کیمپ سانحے نے اسکو جلا بخشی۔ مئی 1988 میں جنرل ضیاء نے جونیجو حکومت بر طرف کر دی۔وہ خود بھی ڈھائی ماہ بعد طیارے کے حادثے میں مارے گئے۔اس طرح ملک سے طویل ترین ڈکٹیٹرشپ کا خاتمہ ہوا لیکن جو سیاسی پسمامندگان وہ چھوڑ گئے انہوں نے سازشوں کے علاوہ کچھ نہیں سیکھا تھا۔ اس لئے بظاہر 1988 ء سے لیکر 1999 ء تک ملک میں جمہوری دور کا احیاء ہوا لیکن ایک سے بڑھ کر ایک سازش ہوئی۔ 1990 ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت اسحٰق خان نے نواز شریف کے ساتھ ملکر 58(2)بی کے اختیارات استعمال کر کے توڑ دی اور پھر اسی صدر نے نواز شریف حکومت کو 1993 ء میں بینظیر بھٹو کے ساتھ ملکر اسی آئینی اختیار کے تحت رخصت کر دیا۔نواز شریف کی حکومت نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ نے بحال ضرور کی لیکن چند ماہ بعد وہ خود ہی استعفیٰ دے کر چلے گئے۔ 1996 ء میں بینظیر بھٹو کے منہ بولے بھائی فاروق لغاری نے اپنی بہن کی حکومت نواز شریف کے ساتھ مل کر رخصت کر دی۔1997 ء میں نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم بنے تو انہوں نے فوج سے لیکر اعلیٰ عدلیہ اور اپوزیشن کے چھکے چھڑانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو اپنے حمایتی ججوں کی مدد سے فارغ کرایا،آرمی چیف جنرل کرامت کو گھر بھیجا اور بینظیر بھٹو کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جبکہ آصف زرداری جیل میں سڑتے رہے۔اس وقت اپوزیشن بری طرح سہمی ہوئی تھی۔اس وقت پاکستان کی ایک بہت جمہوریت پسند جماعت کے سربراہ سے میری ہلکی پھلکی تکرار ہوئی کہ میاں نواز شریف سویلین بالا دستی قائم کر رہے ہیں لیکن وہ اس سے متفق نہیں تھے۔ انکے خیال میں یہ شاونزم ہے کہ آپ تمام اداروں کو تہہ وبالا کردیں اور نام سویلین بالا دستی کا استعمال کریں۔جب پوچھا کی حل کیا ہے تو انہوں نے انتہائی بے بسی سے کہا کہ حل ایک ہی ہے جو ہم نہیں چاہتے۔ اور پھر وہی حل ہوا جو وہ نہیں چاہتے تھے۔ جنرل مشرف نے 12 اکتوبر1999 ء کو اپنی برطرفی کے رد عمل میں میاں نواز شریف کو جیل بھیج دیا۔سازشیں جنرل مشرف کے آنے کے بعد بھی نہیں رکیں۔ وزیر اعظم جمالی کی فراغت بھی سازش کا نتیجہ قرار پائی اور آخری وقت میں ہمایوں اختر کی بجائے جنرل مشرف کی طرف سے شوکت عزیز کا جمالی صاحب کی جگہ پر انتخاب بھی سازش قرار دیا جاتا رہا۔مشرف کی فراغت کو بھی ایک سوجھی سمجھی سازش سمجھا جاتا ہے جس میں پاکستان کے طاقتور طبقے کے علاوہ بین الاقوامی قوتوں کا بھی نام لیا جاتا ہے۔2011ء میں میمو گیٹ آیا تو بر سر اقتدار پیپلز پارٹی نے سازش کا شور مچایا کہ صدر زرداری کو اس میں خوامخواہ ملوث کیا جا رہا ہے جو کہ کچھ غلط بھی نہیں تھا اور سپریم کورٹ نے بھی اسکی تصدیق کر دی۔ اسی طرح سے جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سوئٹزر لینڈ کی حکومت کو ایک خط نہ لکھنے پر توہین عدالت کی معمولی سی سزا ہوئی اور اس سزا کی توضیح کے لئے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے نیا بنچ بنا کر گیلانی صاحب کو نا اہل قرار دیا تو پھر سازش کا واویلا مچا۔ میاں نواز شریف تیسری بار اقتدار میں آئے تو عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے الزامات اور 2015 ء کا دھرنا بھی سازش قرار پایا۔ نواز شریف کے خلاف پناما کیس اور اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سازش کہا جاتا رہا ہے۔ احتساب عدالت سے نواز شریف، مریم صفدر اور انکے شوہر نامدار کی سزا پر بھی سازش کا واویلا جاری ہے۔ اب جبکہ انکو اسلام آباد ہائیکورٹ سے عارضی ریلیف ملا ہے تو اس میں بھی بہت سے لوگوں کو جو سپریم کورٹ اور احتساب عدالت کے فیصلے کو درست مانتے ہیں سازش نظر آ رہی ہے۔قومی احتساب بیورو کو اس سازش کا سرغنہ قرار دیا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپیل کی سطح پر مقدمہ انتہائی بد دلی سے لڑا جبکہ یہ بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ ریفرنس دائر کرتے وقت ہی اس میں ایسی خامیاں چھوڑ دی گئی تھیں کہ میاں نواز شریف کو با لآخر بری ہی ہونا تھا۔نواز شریف کی رہائی کے بعد ایک اور سازشی تھیوری میدان میں ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر نیا اتحاد بنا رہے ہیں۔ بہت جلد یہ اتحاد حکومت کے خلاف ایک تحریک کا آغاز کرے گا اور میاں نواز شریف جن کا بیانیہ پہلے ہی بہت مقبولیت حاصل کر چکا ہے انہیں کچھ بین الاقوامی طاقتوں کی حمایت خاص طور پر امریکہ کی حمایت بھی حاصل ہو گی جو کہ پاکستان سے بہت ناراض ہے۔کچھ لوگ جو نواز شریف کے بارے میں مودی کا یار ہونے کے طعنے پر یقین رکھتے ہیں بہت دور کی کوڑی لائے ہیں کہ بھارت کی طرف سے دھمکیاں بھی نئی حکومت پر دبائو بڑھانے کی سازش کا حصہ ہیں۔اسی تناظر میں موجودہ حکومت کے لئے اگلے چند ماہ بہت مشکل ہونے کی پیش گوئی کی جارہی ہے۔سازشوں کا دور ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہا لیکن اس دوران ایک بات کا ادراک نہیں کیا جا رہا کہ 23 نومبر 2002 ء کو میر ظفراللہ جمالی کے منتخب وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھانے سے لیکر 30 مئی 2018 ء تک تین منتخب اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی ہے۔ ایک قدر مشترک البتہ رہی ہے کہ وزراء اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پائے لیکن انکی جماعت کی حکومت قائم رہی۔ تاریخی امر یہ ہے کہ تیسری بار مسلسل پر امن انتقال اقتدار ایک سویلین حکومت سے دوسری سویلین حکومت کو ہوا ہے۔تمام تر سازشوں کی خبروں کے باوجود وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت اور پارلیمنٹ بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔اس بار وزیر اعظم بھی پانچ سال مکمل کرتے ہیں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔