یہ نہیں ہے تو پھر اس چیز میں لذت کیا ہے ہے محبت تو محبت میں ندامت کیا ہے خوب کہتا ہے نہیں کچھ بھی بگاڑا اس نے ہم کبھی بیٹھ کے سوچیں گے سلامت کیا ہے آج مجھے محبت کے ضمن میں بات کرنا ہے مگر پہلے کچھ سیاست ہو جائے کہ کچھ تفنن طبع کے لئے بھی تو ہونا چاہیے آپ یقین کیجیے یہ لطائف کی دنیا ہے۔اس قدر تضادات اور منافقت ہے کہ بس چپ ہی بھلی۔بس وہی کہ پڑھتا جا شرماتا جا کہ انہوں نے تو نہیں شرمانا۔مریم نواز فرماتی ہیں کہ عدلیہ آج بھی عمران کو کھلی چھٹی دے رہی ہے دوسرا ارشاد یہ فرمایا کہ مہنگائی سے فوری ریلیف کا کوئی امکان نہیں جی وہ ٹھیک کہتی ہیں اتنے خوبصورت ہونٹ جھوٹ کیسے بولیں گے غالب کا مصرع چمک اٹھا ’’شرم تم کو مگر نہیں آتی‘‘ کوئی محترمہ سے پوچھے کہ کبھی عدلیہ آپ کی بھی ہوا کرتی تھی آپ کی ایما پر بھی فیصلے ہوا کرتے تھے۔لیکن منصف آپ کے ساتھ بھی کھڑے تھے اگر آپ کے خلاف آئے تو آپ سپریم کورٹ پر حملہ آور بھی ہو جایا کرتے تھے۔دوسری بات مہنگائی کی کہ اگر اس کے کم ہونے کا امکان نہیں تو پھر آپ کیا کرنے آئے تھے کیا آپ صرف اپنے کیس معاف کروانے آئے تھے؟آپ کے پاس ایک ہی موضوع ہے۔وہ ہیں عمران خان اور ایک ہی ٹارگٹ ہے عمران خاں کی نااہلی اور گرفتاری جو آپ کر نہیں سکتے اپنی فضول باتوں سے لوگوں کا وقت ضائع کرنا چھوڑ دیں۔ دوسری طرف ہمارے خان صاحب ہیں کہ وہ بھی بچوں کی طرح ہوا میں رنگین بلبلے چھوڑتے رہتے ہیں ۔ چلیے آپ اس کو خان صاحب کی ادا کہہ لیں انداز سمجھ لیں یا اسلوب سیاست فی زمانہ تو یہی چل رہا ہے کسی کی بات کہیں جوڑ دیں کہیں سے کاٹ کر چلا دیں بلکہ کسی کے نام بھی لگا دیں تو سب چلے گا۔ خان صاحب قمر جاوید باجوہ کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں اور انہیں سپر کنگ کہہ کر طنز کر رہے ہیں مگر وہی ان کی ناک کا بال تھے یا بات اس کے الٹ تھی بہرحال انہوں نے قوم کو تیار رہنے کا کہا ہے قوم یقینا سوچے گی کہ اب ان کے ساتھ کیا ہونے جا رہا ہے: کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشا بنا دیا اب آتے ہیں محبت کی طرف کہ میں نے وعدہ کیا تھا یہ محبت ویسے عجیب چیز ہے۔اسے دیکھا نہیں محسوس کیا جا سکتا۔یہ محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ چھین لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے محبت مار دیتی ہے: میں محبت کو زندگی سمجھا اس محبت نے مار ڈالا مجھے ایک شعر اور ذہن میں آ گیا۔تجھ کو معلوم نہیں کیا ہے محبت کا کمال جس کو چھوتی ہے اسے خواب بنا دیتی ہے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مجھ کو میری ہی اداسی سے نکالے کوئی میں محبت ہوں محبت کو بچا لے کوئی۔سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ محبت ہے کیا۔میرے ذہن میں فوراً شیفتہ کا شعر آ گیا شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی۔اصل میں ہمارے محترم حمید حسین صاحب نے محبت کی بات کی اور پھر اس کے پہلو اجاگر کئے اور اس لفظ کو حقیقت سے آشنا کیا بات یہ بھی ہوئی کہ محبت میں شدت کا نام عشق ہے اور محبت میں عقیدت کا پہلو غالب آئے تو لفظ مؤدت بھی استعمال ہوتا ہے۔یہ انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہے۔جگر نے بھی تو کہا تھا۔اس کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں۔میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے۔ محبت مزاج طبیعت یا میلان ہی تو ہے۔اس کے باعث کوئی آپ کو کشش کرتا ہے آپ اس کی طرف مائل ہو کر آسودگی محسوس کرتے ہیں اسی لئے تو یہ احساس کا نام ہے۔اس کی صورت گری تو شعری ذوق کی بات ہے مگر اسے کسی شکل میں دکھایا نہیں جا سکتا۔ہمارے دوست غلام محمد نے کہا تھا غم کی تشریح بہت مشکل تھی۔اپنی تصویر دکھا دی میں نے۔ مزاج اور طبیعت کے میلان کی بات ہوئی تو غالب سامنے آن کھڑے ہوئے: جانتا ہوں ثواب طاعت و زھد پر طبیعت ادھر نہیں آتی ہو محبت تو ٹپک پڑتی ہے۔خود آنکھوں سے۔ اے مرے دوست بتانے کی ضرورت کیا تھی۔ آپ نے بھی دیکھا ہو گا کہ کتاب پہ لکھا ہوتا ہے محبت کی نظمیں بہرحال جو بات حمید حسین نے کہی تھی وہ حقیقت کی طرف جاتی تھی۔مجاز کی بات اپنی جگہ ہے لوگ مجاز میں بھی حقیقت تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یہ جو محبت ہے یہ انسان کے عمل سے نظر آتی ہے یہ ڈھل کر کردار بھی بن جاتی ہے انسان کے رویے سے ظاہر ہوتی ہے یہ بہت بے ساختہ ہے اس کے لئے سوچنا نہیں پڑتا ادب کے تقاضے بھی یہ جانتی ہے یہ کبھی اویس قرنی میں نظر آتی ہے تو کبھی کسی اور پروانے میں۔میں بات کو بالکل مذہبی نہیں بنانا چاہتا کہ آپ بات کو وعظ سمجھیں گے مگر اس سچی محبت کی مثالیں وہیں ملتی ہیں کہ نفس گم کردہ ۔ مجھے امید ہے کہ میرے قارئین کو اچھا لگا ہو گا کہ میں نے سیاست کی ڈگر میں سارا کالم نہیں لکھ دیا محبت تو شاید سیاست میں بھی ہے مگر ساری کی ساری اپنے مفادات کے ساتھ۔بلکہ وہاں تو محبت کی اداکاری کرنا پڑتی ہے شاید اس کا تعلق ان کے عہدے سے بھی ہے اور دہن سے بھی کہ یہ شیرو شکر بھی محسوس ہوتی ہے۔بات میں یہاں آ کر ختم کروں گا کہ اس محبت کی انتہا یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو کسی کے لئے یکسر مہنا کر دے اور یہی اصل ایمان ہے وہ جو کہا گیا کہ وہی مسلمان ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات کی ہر شے سے عزیز جانے حتیٰ کہ اپنی جان سے بھی زیادہ اسی سے اللہ بھی محبت کرے گا۔