اگر ادیب یا شاعر کو مصور مان لیا جائے تو پھر اسے اپنے کام پر اتنا عبور تو ہونا چاہیئے کہ وہ پرانے ماسٹروں کے رنگوں اور برش سٹروکس کو جانتا ہو۔ اگر یہ کہا جائے کہ ادیب سیاح ہے تو اسے دیس دیس کی کہانیاں بھی آتی ہوں۔ مگر ساتھ ہی اس کا دل اپنے وطن کی کہانیوں میں دھڑکتا ہو۔ اگر راہ میں کٹھن دھوپ آ جائے تو وہ اپنے لیے کوئی ایسا بادل کا ٹکڑا ڈھونڈ سکے جو اس پر سائبان کی سایہ فگن ہو۔ ادب کی راہ ایسی راہ ہے جس پر چلتے چلتے کبھی ہاتھوں میں دبے قلم کے دباؤ سے انگلیاں لہو اْگلنے لگتی ہیں۔ کبھی پاؤں ریت پر پھسلتے اور دھنستے ہوئے آگے کی بجائے چار قدم پیچھے کی طرف جاتے ہیں۔ لیکن پھر اْس کڑی دْھوپ میں کہیں اچانک ہی ایک چھتنا ور درخت بھی دکھائی دے جاتا ہے جس کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر سستایا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی ایک شخص کو میں جانتی ہوں جو ماہر کاری گر کی طرح چھینی، برمہ، ہتھوڑا ہاتھ میں لیے ہمہ وقت مختلف لکھاریوں کی مدد کو تیار رہتے ہیں۔ ’’سائبان‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی جریدہ نکالتے ہیں۔ یہ نہ صرف ایک رسالہ ہے بلکہ اس دورِ ناگہاں میں یہ روکھی زمین میں ایک ایسے ہل کی طرح ہے جس کی نوک سے جب سْوکھی مٹی اپنی پرتیں اتارتی ہے تو نیچے سے ذرخیز اور چکنی مٹی نکل آتی ہے۔ ہر شعبے میں لکھنے والے مصنف، شاعر، خاکہ نگار، مضامین نگار، افسانہ نگار جب اپنے لفظوں کے بیج بوتے ہیں تو لہلہاتے ہوئے پودے سکون کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جی ہاں! میں بات کر رہی ہوں حْسین مجروح صاحب کی جو اپنے اسلوب،قناعت اور طرز ادا میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ حْسین مجروح صاحب مفاد و عناد کے اس چکا چوند عہد میں صلہ و ستائش سے بے نیاز ہو کر کسی دیوانے عاشق کی طرح یہ جریدہ تواتر سے شائع کر رہے ہیں۔ بلاشبہ اس دور میں کاغذ کے دام، طباعت و اشاعت میں لا محالہ اضافے کے باوجود وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سہ ماہی شمارے کی قیمت فقط 500 روپے ہے جو ماہانہ صرف (170) روپے بنتی ہے۔ یقین کیجیے اتنی کم قیمت میں اتنا شاندار ادب جس میں انواع کے گلہائے محبت آپ کے دل و دماغ اور روح کو شانت کرتے ہیں۔’’سائبان‘‘کی کہانیوں کے کردار آپ سے ہاتھ بڑھا کر آپ کے پہلو ہی میں بیٹھ جائیں گے۔ جو کہانیاں نہیں کہہ سکتے وہ غزلیں اور نظمیں کچھ اس انداز میں کہتے ہیں کہ لگتا ہے کہ شاعر آپ کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔ اس دفعہ اکتوبر سے دسمبر کا شمارہ موصول ہوا۔ سب سے پہلے میاں صلاح الدین (مرحوم) جو این۔ سی۔ اے میں ہمارے سرامک کے استاد تھے ان کا خاکہ پڑھا۔ وقت پَر لگا کر ماضی کی ان وادیوں میں لے گیاجہاں میری کچی عمر کے سنگ سب دوستوں کی شرارتیں اور استادوں کی بذلہ سنجی ہوا کرتی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا میں ایک بار پھر سے لا ابالی عمر کے پْر جوش دھارے میں بہنے لگی ہوں جب خواب ہاتھوں سے تتلیوں کے طرح پھسلنے کی بجائے اپنے رنگ ہتھیلیوں پر چھوڑ جاتے تھے۔ آنکھوں کے جْگنوبصارتوں میں اضافہ کرتے تھے۔ زندگی جب پریکٹیکل لائف میں لائی تو وہ جْگنو اور خواب آنکھوں میں چْھبنے لگے۔ کیونکہ بقول شاعر تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے! خیر بات ہو رہی تھی سائبان کی جو صرف ایک شمارہ نہیں بلکہ ایک تحریک ہے۔ عشق ہے۔ ادیب اور قاری کا رشتہ ہے۔ پانی کا وہ ایک قطرہ ہے جس کے اندر طوفان انگڑائیاں لیتا ہے۔ استادِ محترم نصیر احمد ناصر صاحب کی نظم ’’ملے بغیر جْدا ہونا‘‘ پڑھی تو میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں شور مچ گیا۔ مجھے لگا کہ میں نے اپنی موت کا خواب دیکھ لیا۔کس طرح ہماری شخصیت قطرہ قطرہ بن کر زندگی کی چھوٹی چھوٹی بے معنی سی ضرورتوں کو پانے کے لیے پگھلنے لگتی ہے اور ہماری زندگی ایک نہ پڑھنے والی کتاب بن کر رہ جاتی ہے۔ نور الہدیٰ شاہ صاحبہ کی نظم ’’غارِ اصحاب‘‘ مجھے صدیوں پرانے زمانے میں لے گئی جہاں قدیم غار اور پیڑ نظر آئے۔ اس نظم نے مجھے بتایا کہ اب انسان اور انسانیت دونوں مر چْکے ہیں۔ میں نے تب اپنے ربّ سے دْعا کی! یاربّ! مجھے آنکھیں عطا کیجیے! سائبان گلشن کی اس باڑی کی طرح ہر گز نہیں جہاں پسند کے پْھول ایک قطار میں سلیقے سے کھِلے ہوں۔ بلکہ یہ ان خودرو پھولوں کی طرح ہے جو کسی بھی میدان یا پہاڑیوں کی وادیوں میں کھِلتے ہیں۔ مصباح نوید کی کہانی ’’ناشکری‘‘ ہر اس عورت کی کہانی ہے جو اپنے سینے میں چھپے ان خوابوں کو پانا چاہتی ہے جو اسے نوجوانی اور دورانِ تعلیم سکھائے جاتے ہیں۔ شادی کے بعد ایک ہی گھر میں اکٹھے رہنے والے میاں بیوی کو ایک ہی صبح بہار کی نظر آتی اور دوسرے کو وہی صبح خزاں کی۔ ہم اپنی خوشی صرف اطاعت پسندی میں دیکھتے ہیں یہ ’’ناشکری‘‘ کا ماخذ ہے۔ بہرکیف سائبان ایک ایسا رنگا رنگ شمارہ ہے، جس میں سماجی، سیاسی اور معاشی صور حال پر ذرخیزی کی تحریریں موجود ہیں۔ میں اپنے قارئین اور تمام ادب کے شوقین خواتین و حضرات سے پْرزور اصرار کروں گی کہ سائبان جس میں تجزیاتی مضامین بھی ہیں اور فلسفیانہ بھی۔ جہاں تاریخ بھی اپنی تمام ترجمالیات کے ساتھ ذہنوں کی آبیاری کرتی ہے۔ سائبان خریدیے! اور اہل خانہ کو بھی ادب پڑھنے کی تحریک دیجیے۔ حْسین مجروح کہتے ہیں کہ دنیا میں اچھا ادب برے سے برے حالات میں تخلیق ہوا۔ سائبان تحریک ادیبوں کے ساتھ ہونیوالی ناانصافیوں اور شکایات کو بھی دور کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ میں حسین مجروح صاحب کو اس جریدے کی اشاعت کے تسلسل پر مبارکباد اور آگے کے سفر کے لیے دعائیں پیش کرتی ہوں۔ قارئین! ایسے جریدے کو یقینا ہماری حوصلہ افزائی کی بھرپور ضرورت ہے۔ لہذا آگے بڑھیے! جس طرح چرواہے کی بانسری اس کے اندر رس گھولتی ہے۔ آپ بھی سائبان خریدیے۔ اس کے سریلے سروں سے لْطف اْٹھائیے۔ دیوالی کے دیوں کی طرح ادب کے دیے جلائیے کہ یہی چراغ روشنی دیں گے!