اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک او راہل بیت کوخاص فضائل و خصوصیات اور عظمتوں سے نوازاہے ۔حضرت علامہ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بحمد اللہ تعالیٰ ہم اہل سنت وجماعت محبت اہل بیت کی کشتی پر سوار ہیں اور ہدایت کے چمکتے ہوئے ستارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ہدایت پاتے ہیں ۔لہٰذا ہم لوگ قیامت کی ہولناکیوں سے اور جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیں گے ۔(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ص610جلد 5)اکابرین سلف و خلف رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف و توصیف میں ہمیشہ رطب اللسان رہے ۔لوگوں کو ان سے محبت رکھنے کی تاکید فرماتے ہوئے اور خو د ان سے بے انتہا محبت رکھتے تھے ۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں :’’رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے رشتہ داروں کی خدمت کرنا مجھے اپنے رشتہ داروں کی صلہ رحمی سے زیارہ محبوب ہے ‘‘۔(الشرف المؤبد ص87)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابی اور سابقین اولین میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں:’’آل رسو ل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے ۔‘‘(ایضاً ص85)علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابراہیم بن عبد اللہ محض بن حسن مثنیٰ بن حضرت امام حسن علیہم السلام کی حمایت کی اور لوگوں کو فتویٰ دیا کہ لازمی طور پر ان کے ساتھ اور ان کے بھائی محمد کے ساتھ رہیں ۔کہتے ہیں کہ امام اعظم رضی اللہ عنہ کی قید و بند اصل میں اسی بنا پر تھی اگر چہ ظاہر میں سبب یہ تھا کہ انہوں نے قاضی کا منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔(الشرف المؤبد ص88) حضرت علامہ نبہانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت امام شافعی رضی اللہ عنہ کا سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پاک سے محبت کرنے کا انداز ہی نرالہ تھابلکہ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی محبت یہاں تک تھی کہ جوش عقیدت وجذبۂ محبت میں اہل بیت رسالت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اے رسول اللہ کے اہل بیت!آپ لوگوں کی محبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہے اور یہ حکم خدائے ذوالجلال نے قرآن مجید میں نازل فرمادیا ہے : قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربیٰ: ’’اے محبوب! تم فرما ئو کہ میں اس پر تم لوگوں سے کچھ نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔‘‘آل رسول کی عظمت و بزرگی ظاہر کرتے ہوئے امام شافعی رضی اللہ عنہ مزید فرماتے ہیں :اے آل رسول! آپ لوگوں کے لئے یہ عظیم فخر کافی ہے کہ جو شخص آپ پر درود نہیں بھیجتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔(الشرف المؤبد) حضرت علامہ عبد الوہاب شعرانی رحمۃ اللہ علیہ سنن کبریٰ میں فرماتے ہیں کہ مجھ پر اللہ تعالیٰ کے احسانات میں سے ایک یہ ہے کہ میں سادات کرام کی بے حد تعظیم کرتا ہوں ۔میں اس تعظیم کو اپنے اوپر ان کا حق تصور کرتا ہوں ۔سادات کرام کے آداب میں سے یہ ہے کہ ہم ان سے عمدہ بستر ،اعلیٰ مرتبے اور بہتر طریقے پر نہ بیٹھیں ۔ان کی مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح نہ کریں ۔اسی طرح کسی سید زادی سے نکاح نہ کریں اگر ہم میں سے کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ ہم ان کی تعظیم کا حقِ واجب ادا کر سکتے ہیں اور ان کی مرضی کے مطا بق عمل کر سکتے ہیں تو پھر ان سے نکاح کر سکتا ہے ۔(برکات آل رسول ص253) اسی خانوادۂ اہل بیت کے ایک معصوم اور ننھے فرد جناب سیدناعلی اصغرعلیہ السلام ہیں جن کی ولادت باسعادت 9 رجب 60 ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔آپ کا اسم گرامی’ علی‘اور بعض روایا ت کے مطابق آپ کانام’ عبداللہ ‘علیہ السلام ہے ۔ آپ امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کے شہزادے ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی سیدہ رباب بنت امراء القیس بن عدی ہے ۔جب مدینہ منورہ میں یزید لعین کے ایماپرنواسۂ رسول سیدنا امام حسین علیہ السلام اوران کے خانوادہ پر رہنامحال کردیاگیاتو انھوں نے مکہ مکرمہ کی طرف روانگی کا فیصلہ کیا۔ جس صبح کو مدینہ طیبہ سے روانہ ہونا تھااسی رات کا کچھ حصہ اپنے نانامحمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اپنی والدہ محترمہ طیبہ و طاہرہ سلام اللہ علیھا، برادر مکرم سیدنا امام حسن علیہ السلام ، امہات المومنین رضی اللہ عنھن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم جو جنت البقیع میں استراحت فرما ہیں ،ان کی بارگاہ میں حاضری دی ، ہدیہ سلام میں پیش کیااوراپنے خاندان مقدسہ کو لئے ہوئے 60ہجری ماہ رجب کی 28تاریخ کو مدینہ طیبہ سے روانہ ہوئے تو مدینہ پاک سے حضرت امام کی روانگی اہل مدینہ اور خود امام عالی مقام کے لئے کیسا رنج و اندوہ کا وقت تھا ۔جب مکہ مکرمہ میں رہنا ناممکن ہوگیا تو امام حسین علیہ السلام کوفہ روانہ ہوئے اور 2محرم الحرام تک کربلا پہنچ گئے ۔سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام جب میدان کربلا پہنچے تو میدان کربلا میں تمام اہل خانہ کے ہمراہ ننھے شہزادے سیدنا علی اصغر علیہ السلام بھی اپنی والدہ ماجدہ کی گود میں تھے ۔ 7 محرم سے یزیدی فوج نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کے قافلے پر پانی بند کردیا۔آخر کار 10محرم کا سورج طلوع ہونے لگا تو کبھی عون ومحمد شہید ہورہے ہیں کبھی حضرت قاسم کے جسم اطہر کے ٹکڑے آرہے ہیں۔ شہزادہ سیدنا علی اصغر علیہ السلام کی شہادت کے واقعات انتہائی درد ناک و کرب ناک ہیں شدت پیاس کی بدولت سیدناامام حسین علیہ السلام آپ کو ہاتھوں پہ اٹھا کرخیموں سے باہر لائے اور یزیدیوں سے مخاطب ہوکرکہاکہ یہ میرا اصغر جو چھ ماہ کا ہے تین دن پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا ہے ۔اسے ہی پانی پلادو مگران شقی القلب یزیدیوں پرکوئی اثرنہ ہواکیوں کہ ان کے دلوں پرمہریں ثبت ہو چکی تھی۔اتنے میں ایک ظالم حرملہ بنت کاہل اسدی نے ایک زہر میں بجھا تیر آپ کی طرف پھینکا جس سے اس معصوم شہزادے نے جام شہادت نوش کر لیا ۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام نے اس معصوم شہزادے کے خون کو ہاتھوں پر اٹھا کر آسمان کی طرف اچھال کر اللہ تعالیٰ کی بارگا میں درد بھری آواز میں التجا کی:’’ اے میرے مالک !میری قربانی کو قبول فرما!‘‘اس لیے باب الحوائج شہزادہ سیدنا علی اصغر علیہ السلام کا شمار میدان کربلا کے معصوم اور کم عمر شہدائے کرام میں ہوتا ہے ۔کرب و ابتلاء کی اس گھڑی میں خاندان نبوت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کی رضا کو طلب کرتے ہوئے قربانی کے جذبے سے سرشار تھا اور تقدیر الہی کے مطابق خاندان ِاہل بیت نے امام سیدالشھداء امام حسین علیہ السلام سمیت کربلا کے میدان میں جام شہادت نوش فرما کر قیامت تک کے لیے دین اسلام کو سربلندی عطا فرمائی۔ آج 9رجب المرجب شہزادہ سیدنا علی اصغر علیہ السلام کا یوم ولادت ہے ۔ مآخذ: (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،الشرف المؤبد، برکات آل رسول،ذخائر العقبیٰ ،شہادت نواسۂ سیدالابرارومناقب آل نبی المختار،)