ماضی کو یاد کرکے ماتم کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان حال پر کبھی خوش نہیں رہتا۔ سرشت میں ناشکری شامل ہے۔ ممکن ہے کہ یہ بات سچ ہو۔ اس سچ کو ثابت کرنے کے لیے بہت ساری مثالیں بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ لیکن دو چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اگر ہم ماضی کا ماتم نہ کریں تو خود ہمارا شعور بھی شکوہ کرے گا۔ ایک بات یہ ہے کہ ہم نے سائنسی ترقی کے اس سفر میں جتنا نقصان کرہ ارض کا کیا ہے، وہ جرم آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ کیوں کہ ہماری اگلی نسلوں نے ہمیں جو دھرتی دی تھی، ہمیں جو جنگلات دیے تھے، ہمیں جو پہاڑ دیے تھے اور ہمیں جودریا دیے تھے۔ ہم نے اس امانت میں اپنی حرص کی وجہ سے جو خیانت کی ہے اس کا نتیجہ آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں۔ جس طرح گرمی کا درجہ بڑھ رہا ہے۔ جس طرح گلیشئر پگھل رہے ہیں۔ جس طرح جنگل ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ جس طرح پہاڑوں کا وجود مٹتا جا رہا ہے۔ جس طرح قلت آب عالمی تنازعات کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے جس طرح فطرت کا توازن ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ اس لیے انسان کچھ بھی کہے اور کوئی سا بھی دعوی کرے مگر یہ کلنک اور یہ داغ اپنے ماتھے سے نہیں مٹا سکتے کہ انہوں نے دھرتی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ فطرت کے بعد اگر انسان نے ترقی کے نام پر تباہی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ میدان سیاست ہے۔ یہ عالمی المیہ ہے کہ دنیا کے وہ ممالک جہاں بہت بڑے دانشور اور بہادر رہنما پیدا ہوئے، آج ان ممالک کی سربراہی ایسے ہاتھوں میں ہے جن کو ٹھیک سے فائل پکڑنا بھی نہیں آتا۔ دنیا میں فطرت کے بعد سیاست کا زوال ایک ایسا موضوع ہے، جس پر کسی بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ حقیقت ہمیشہ آفاقی ہوا کرتی ہے۔ آپ یہ سوال کہیں پر بھی اٹھا سکتے ہیں۔آپ کہیں پر بھی یہ مباحثہ شرو ع کروا سکتے ہیں۔پوری دنیا میں آپ کو اس بات کے حق میں بہت سارے لوگ ملیں گے،جو اس سچائی پر بہت دکھی اور دلبرداشتہ ہیں کہ انسانوں نے ممکن ہے کہ بہت سارے شعبوں میں ترقی کی ہو۔ انہوں نے میڈیکل اور انجنیئرنگ کے شعبوں میں کارنامے دکھائے ہونگے۔ مگر انہوں نے سیاست میں انسانیت کو بہت برے دن دکھائے ہیں۔ ہم اس نظریاتی حوالے سے آج بھی کسی سے شدید ترین اختلاف رکھ سکتے ہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ابراہم لنکن سے لیکر ڈونلڈ ٹرمپ تک امریکہ کی سیاست تنزلی کی تاریخ کا پتہ دیتی ہے۔ ٹرمپ تو ایک بدنام نام بن گیا مگر بائیڈن صاحب نے کون سے کارنامے سرانجام دیے ہیں؟ روس کے حوالے سے کوئی شخص کچھ بھی سوچ سکتا ہے۔ روس آج سائنسی طور پر کسی برے مقام تک نہیں ۔ کیوں کہ روس نے بشمول یورپ امریکہ کو جس طرح ٹف ٹائم دیا ہے اور جس طرح یوکرین جنگ میں مصروف ہونے کے بعد اس روبل آج بھی مستحکم ہے، یہ کوئی چھوٹی بات نہیں۔ مگر ہم روس کو اگر ماضی کے جھرونکے میں دیکھیں گے تو ہمیں روس کی سیاست عروج سے زوال تک کا سفر نظر آئے گی۔ ہم سوشلزم کے بارے میں کوئی سا بھی نظریہ رکھ سکتے ہیں۔ مگر ایک وقت ایسا تھا جب آدھی دنیا کی رہنمائی روس کے ہاتھ میں تھی۔ جس جگہ پر کبھی لینن بیٹھا تھا ،آج وہاں ولادیمیر پیوتن ہے۔ ہاں! کبھی وہاں لینن تھا۔ وہ لینن جس نے اکتوبر انقلاب برپا کیا تھا۔ وہ لینن دہریہ تھا مگر اس نے فرنگی نظام کی جس طرح دھجیاں اڑائی تھیں، اس کے اس عمل کی تعریف علامہ اقبال نے ان الفاظ میں کی ہے : یہ وحی دہریت روس پہ ہوئی نازل کہ توڑ ڈال کلیساؤں کے لات و منات روس کبھی دنیا کا سپر پاور تھا اور آج اس کی وہ حیثیت نہیں ہے۔ میں روس کے مشہور حکمران جوزف اسٹالن کی حمایت نہیں کر سکتا مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہٹلر کو شکست دینے میں اہم ترین کردار اسٹالن کا تھا۔ اگر اسٹالن نہ ہوتا تو آج یورپ کا نامعلوم کیا حشر ہوتا۔ مگر جس ماسکو کے تخت پر کبھی اسٹالن تھا آج وہاں کے جی بی کا سابق سربراہ ولادمیر پیوٹن ہے۔ پیوٹن نے جس طرح امریکہ کا مقابلہ کیا ہے وہ بھی قابل تعریف ہے مگر کہاں لینن؟ کہاں اسٹالن؟ اور کہاں پیوٹن؟ سیاست کے زوال کا سلسلہ صرف مغرب تک محدود نہیں۔ ہمارا ملک بھی اس المیہ سے دوچار ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہمارا ماضی ہمارے حال سے بہت بہتر تھا۔ حالانکہ اس ماضی میں بہت ساری غلطیاں بھی ہیں۔ اس ماضی میں آمریتوں کے سائے بھی ہیں۔ ہم نے اپنے ماضی میں بیشمار غلطیاں کی ہیں۔ مگر جن حالات سے وطن عزیز آج دوچار ہے ایسے حالات کبھی پہلے نہیں دیکھے گئے۔ اس سلسلے میں ہم قائد اعظم محمد علی جناح کا نام لینے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ کیوں کہ وہ سیاستدان نہیں ہمارے رہنما تھے۔ وہ تو بانی قوم و وطن تھے۔ ان کا رتبہ تو الگ ہے مگر سرد جنگ کے دوراں ہماری ملکی سیاست میں جو گرمی تھی وہ اب کہاں ہے؟ گذشتہ صدی کے ساتویں عشرے کے دوران ہمارے ملک کی سیاست میں جو سمجھ اور جو جذبہ تھا وہ اب تلاش کرنا بھی عبث ہے۔ پیپلز پارٹی آج بھی ہے۔ مسلم لیگ آج بھی ہے۔ آج تو تحریک انصاف کا بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ مگر جو بات ہمیں بھٹو دور کی سیاست میں نظر آتی ہے وہ اس دور میں تو اس کا تصور کرنا بھی محال ہے۔ وہ پیپلز پارٹی نے جو بھٹو نے بنائی تھی اس پیپلز پارٹی کو بینظیر بھٹو نے کسی نہ کسی طور پر چلایا اور دو بار اقتدار بھی حاصل کیا مگر اس کی بنیاد کو محترمہ نے اس قدر کمزور کردیا کہ اب پیپلز پارٹی اقتداری کھیل تو کھیل سکتی ہے مگر اس عوام کی قیادت نہیں کرسکتی جس عوام کو کبھی ذوالفقار علی بھٹو نے سیاست سے سرشار کیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے جو ملے اور جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا تو وہ انہیں آخری دم تک فراموش نہ کر پائے مگر آج بھی تلہ گنگ جیسے چھوٹے علائقے میں عبدالرزاق باہی جیسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے بھٹو سے ہاتھ نہیں ملایا مگر وہ گواہی دیتے ہیں کہ بھٹو نے سیاست کو حسن بھی دیا اور اس کو طاقت بھی عطا کی۔ عمران خاں بہت مغرور سیاستدان بھی ہیں۔ وہ بڑے سے بڑے سیاستدان کو اپنا ہم پلہ نہیں سمجھتے۔ وہ پاکستان میں اکثر سیاستدانوں کے مخالف ہیں۔ وہ میاں نواز شریف؛ شہباز شریف اور آصف زرداری تو کیا وہ بینظیر بھٹو اور پرویز مشرف پر بھی کڑی تنقید کر جاتے ہیں۔ مگر جب ذوالفقار علی بھٹو کا تذکرہ آتا ہے وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ بھٹو صاحب ایک آزاد خارجہ پالیسی کے خالق تھے۔ حالانکہ عمران خاں زیڈ اے بھٹو کی تعریف میں کنجوسی سے کام لیتے ہیں۔ مسٹر بھٹو نے قوم کو جس وقار اور وحدت سے ہم کنار کیا؛ اس کی مثال ہمیں ستر سالوں میں نہیں ملتی۔ ہم اپنے ماضی پر اس لیے بھی ماتم کرتے ہیں کہ ہمارے ماضی میں سیاست ایک امانت تھی۔ آج سیاست ایک خیانت بن چکی ہے ۔ وہ خیانت اتنے کھلے انداز سے کی جارہی ہے کہ ہم نے سیاسی خیانت کو جیسے قبول کرلیا ہو۔ اس سے بری بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ بقول اقبال ہمیں اس زیاں کا احساس بھی نہیں ہے۔