پاکستان تسلسل سے ایک عالمی "استبدادی" مہم کا ہدف بنا ہوا ہے، جس کا مقصد اسے اس کے جیو سٹریٹیجک اور جیوپولیٹیکل عزائم سے دست بردار کروانا ہے۔ ایک بھاری پتھر کندھے پر اٹھا کر ڈھلواں چٹان کے اوپر لے جانے کی ختم نہ ہونے والی مشقت دیومالائی یونانی کردار سِسی فَس کی تقدیر بنا دی گئی تھی۔ پتھر شام کو ڈھلوان سے لڑھک کر نیچے گر جاتا تھا اور سِسی فَس کو اگلے روز پھر اسے کندھے پر اٹھا کر اوپر لے جانا پڑتا تھا۔ وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت کے قریباً تین برسوں کے دوران پاکستان کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا گیا ہے۔ ذرا غور کیجیے: پاکستان پچھلے ڈھائی سال سے ایف اے ٹی ایف کی "گرے لسٹ" سے نکلنے کے لیے عالمی تائید و حمایت حاصل کرنے کی ہر ممکن طریقے سے کوششیں کر رہا ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکامی کا ذمہ دار ایک حد تک پاکستان بھی ہے لیکن اگر کالا دھن سفید کرنا (منی لانڈرنگ) اور دہشت گردوں کی مالی مدد کرنا (پاکستان پر لگائے گئے دو بڑے الزامات) کسوٹیاں ہیں، تو کئی ایسے ملک ہیں جو پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ ان کی خلاف ورزی کر رہے ہیں لیکن ان پر اس قدر سختی نہیں کی جا رہی۔ چناں چہ پاکستان کے ساتھ عالمی طاقتوں کے "خصوصی برتاؤ" کا کوئی نہ کوئی سبب لازمی ہو گا۔ لا فیئر اور استبدادی سفارت کاری کا ہدف واضح طور سے پاکستان ہے۔ عالمی طاقتوں کا مقصد یہ ہے کہ ایک ختم نہ ہونے والی بین الاقوامی فہرستِ خواہشات کے ذریعے پاکستان کو "فرماں بردار" بنا کر زور زبردستی ہر بات ماننے پر مجبور کر دیا جائے۔ اس سارے کھیل کا مقصد پاکستان کی ترقی کی راہیں مسدود کرنا ہے۔ پاکستان پر سے دباؤ صرف اس صورت تھوڑا کم ہو سکتا ہے کہ وہ مغربی طاقتوں کے اشاروں پر چلنا شروع کر دے۔ پاکستان کے بارے میں تازہ عالمی تصور یہ ہے کہ وہ چین کے مدار میں مستحکم ہو چکا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ پاکستان پر دباؤ مزید بڑھے گا۔چناں چہ یہ امر حیرت کا باعث نہیں کہ چین اور پاکستان دونوں کے ساتھ ایک سا سلوک کیا جا رہا ہے۔گو کہ چین اپنی تزویری، فوجی اور معاشی قوت کی وجہ سے اپنے مؤقف پر ڈٹے رہنے کے قابل ہے۔ چین کے خلاف شر انگیز عالمی مہم چلائی جا رہی ہے کہ وہ اویغوروں کی نسل کْشی میں ملوث ہے۔ مغربی میڈیا چین پر "نسل کْشی" کے الزامات کثرت سے لگا رہا ہے لیکن سنی سنائی باتوں اور جعلی شواہد کے سوا کوئی ثبوت فراہم نہیں کر رہا۔ بین الاقوامی قانون "نسل کْشی" کے جرم کا کمیشن بنانے کے لیے بڑی سخت شرائط تجویز کرتا ہے۔ یہ امر واضح ہے کہ جب مغربی تکبر ساری توپوں کا رخ چین کی طرف کرنے کا حکم دے تو یہ ساری شرائط نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ پاکستان کو کئی طریقوں سے بے دست و پا کیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ہٹ دھرمی اور انتہا پسندی پر پاکستان کی عالمی ضمیر جگانے کی کوششوں پر ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی۔ بار بار امریکا کا یہ بیان دینا کہ بھارت اور پاکستان کو دو طرفہ گفت و شنید سے اختلافات حل کرنا چاہیے، پاکستان کو یہ بتانا ہے کہ کشمیریوں کی جانوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ پاکستان نے اتنے سلیقے سے کووِڈ کا سامنا کیا کہ بھارت کے مقابلے میں لوگ بہت کم بیمار ہوئے اور اموات بھی بہت تھوڑی ہوئیں۔ اس کے باوجود مغربی ملکوں نے اسے ان ملکوں کی رسوا کن فہرست میں شامل کر رکھا ہے جن کا سفر کووڈ کے خطرے کے باعث ممنوع ہے۔ یہ سب عقل اور منطق کے خلاف ہے۔ مزید یہ کہ جب صحافی پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف زہر اگلتے ہیں تو مغربی میڈیا پاکستان کو نا انصافی اور ظلم و جبر سے بھری ریاست بنا کر پیش کرنے میں لمحہ بھر بھی دیر نہیں کرتا لیکن جب ہمسایہ ملک بھارت میں مسلمانوں کو ہندتوا فاشزم کا نشانہ بنایا جاتا ہے،تو دنیا اس پر ذرا بھی توجہ نہیں دیتی۔ یہ دہرے معیارات واضح ہیں اور پاکستان کے پالیسی ساز حلقے انھیں نظر انداز نہیں کریں گے۔ ان دنوں بند دروازوں کے پیچھے جاری ایک اور لا فیئر افغانستان سے امریکا کے انخلا کے حوالے سے جاری ہے۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت نے امریکا کو افغانستان میں آپریشنوں کے لیے ایئر بیس دینے سے غیر مبہم طور سے انکار کر دیا ہے لیکن یہ توقع کرنا سادگی ہو گی کہ امریکی اسے بے چون و چرا مان لیں گے۔ وہ پاکستان کا بازو مروڑنے کے لیے ہر حربہ استعمال کریں گے۔ اہم امر یہ ہے کہ یہ ساری رکاوٹیں (افغانستان، ایف اے ٹی ایف، امریکا بھارت گٹھ جوڑ) پاکستان کو ایک فیصلہ کْن موڑ پر لے آئی ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف پہلے ہی پاکستان کی ہمت و استقلال آزما چکے ہیں اور مزید آزمائیں گے بلکہ یہ اگلے پانچ یا دس سال میں ملک کے مقام کے بارے میں ملک کی قیادت کی بصیرت کو بھی روشنی میں لے آئیں گے۔ امریکا کا مطیع و فرماں بردار بننے سے پاکستان کا انکار واضح کر رہا ہے کہ پاکستان کچھ عارضی معاشی راحتوں کے عوض ایک غیر یقینی"کل" کے لیے اپنے "آج" کا سودا نہیں کرے گا۔ خوش گوار تبدیلی یہ ہے کہ پاکستان نے ہر شے پر اپنے مفادات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے یہ بھی سمجھ لیا ہے کہ مغرب کی دل جوئی کے باوجود اس کے متعلق بعض عالمی تصورات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حقیقت کے واضح تر ہونے سے توقع ہے کہ پاکستان خود کو اچھوت قرار دیے جانے اور دنیا کے اشاروں پر چلائے جانے کی کوششوں کا مقابلہ ثابت قدمی سے کرے گا۔ اگر پاکستان تمام تر بین الاقوامی دباؤ کے باوجود مشکل فیصلے کرتا ہے تو اس سے عیاں ہو گا کہ پاکستان ایک نئی سٹریٹیجی ترتیب دے چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ملک کی قیادت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر آنے والی نسلوں کا مستقبل روشن تر اور امید افزا ہو سکتا ہے تو آج اسے ہر مشکل برداشت کر لینی چاہیے۔ قومیں ایسے ہی لمحات میں بنا کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آخرِ کار پاکستان کا وہ لمحہ آ چکا ہے۔