اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی،سپیشل رپورٹر،92 نیوزرپورٹ، نیوز ایجنسیاں ) وزیراعظم عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے 3 سابق بیورو کریٹس کے نام تجویز کردئیے ۔ چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا 5 سالہ آئینی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہو گئے ہیں۔گزشتہ روز وزیراعظم نے چیف الیکشن کمشنر کیلئے بابر یعقوب، فضل عباس میکن اور عارف خان کے نام تجویز کردئیے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر کی تینوں نامزدگیوں کوحکومت نے مسترد کردیا ۔ وزیر اعظم کے تجویز کردہ ناموں میں لیگی دور میں بطور سیکرٹری الیکشن کمیشن تعینات ہونے والے بابر یعقوب کا نام سرفہرست ہے ۔ بابر یعقوب چیف سیکرٹری بلوچستان، گلگت بلتستان، سیکرٹری مواصلات اور امور کشمیر کے عہدے پر فرائض انجام دے چکے ہیں۔ فضل عباس میکن سابق سیکرٹری کابینہ، فوڈ سکیورٹی، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رہ چکے ہیں ، بطور ایڈیشنل سیکرٹری کامرس بھی فرائض انجام دے چکے ہیں۔ عارف احمد خان سیکرٹری خزانہ، داخلہ اور موسمیاتی تبدیلی رہ چکے ہیں ۔ قبل ازیں الیکشن کمیشن میں چیف الیکشن کمشنر سردار محمد رضا خان کے اعزاز میں الوداعی تقریب منعقد کی گئی ۔تقریب میں الیکشن کمیشن ارکان کے علاوہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بھی شرکت کی۔ چیف الیکشن کمشنر نے ممبران اورسٹاف سے الوادعی ملاقات کی اور باری باری سب سے مصافحہ کیا۔چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان کو پھولوں کی پتیاں نچھاور کرکے الوادع کیا گیا۔ادھر مسلم لیگ (ن) کے صدراور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے وزیراعظم عمران خان کو ایک بار پھر خط لکھا ہے جس میں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی جلد از جلد تقرری پر زور دیا ہے ۔ قائد حزب اختلاف نے وزیراعظم کو خط میں چیف الیکشن کمشنر کیلئے ناصرمحمود کھوسہ، جلیل عباس جیلانی اوراخلاق احمد تارڑ کے نام تجویز کئے اور لکھا میری دانست میں یہ ممتاز شخصیات اس منصب کیلئے نہایت مناسب اور اہل ہیں، بغیر کسی تاخیر کے چیف الیکشن کمشنر کیلئے یہ 3 نام زیر غور لائیں، اس امید کیساتھ آپ کو تین نام بھجوارہا ہوں کہ آپکی طرف سے جلد جواب ملے گا۔شہبازشریف نے مزید کہا میری دانست میں آئین کے تحت آپ کو مشاورت کا یہ عمل بہت عرصہ قبل شروع کرنا چاہیے تھا تاہم الیکشن کمیشن جیسے آئینی ادارے کو غیرفعال ہونے سے بچانے کی کوشش میں دوبارہ مشاورت کا عمل شروع کررہا ہوں، امید ہے ان افراد کی اہلیت کی آپ پذیرائی کریں گے اور قانون کے مطابق زیرغور لائیں گے ۔شہبازشریف نے مزید کہا بلوچستان اور سندھ سے الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کیلئے اتفاق رائے پر مبنی مشاورت ضروری ہے تاہم میرے عقلی ومنطقی استدلال کے باوجود بدقسمتی سے مشاورت میں کمیشن کے ارکان پر اتفاق رائے نہ ہونے سے تعطل پیدا ہوا، میں آپ پر زور دیتا ہوں کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے اس مرتبہ مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کریں۔دریں اثنا الیکشن کمیشن کے سینئر ممبر جسٹس الطاف ابراہیم آج قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے طور پر ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ اسلام آباد(لیڈی رپورٹر) اسلام آباد ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کی تعیناتی کے حوالے سے دائر درخواست پر نئے ممبران کی تعیناتی کا معاملہ 10 روز میں حل کر نے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17دسمبر تک ملتوی کر دی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہم پارلیمنٹ کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کام ممبران قومی اسمبلی نے کرنا ہے ۔گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے لیگی رہنمائو ں محسن شاہنواز رانجھا ، مرتضیٰ جاوید عباسی اور جہانگیر جدون کی درخواستوں پر سماعت کی۔وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر جبکہ مسلم لیگ (ن)کی جانب سے محسن شاہ نواز رانجھا عدالت میں پیش ہوئے ۔ الیکشن کمیشن کے وکیل ثنائاللہ زاہد نے بتایا ممبر الیکشن کمیشن پنجاب الطاف ابراہیم قریشی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کا حلف اٹھائیں گے ۔ سیکرٹری قومی اسمبلی کی جانب سے بتایا گیاکہ الیکشن کمیشن ارکان کی تعیناتی پر پیشرفت ہوئی ہے ۔چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی معاملہ حل کرنے کے قریب ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا پارلیمانی کمیٹی کا ساتواں اجلاس بدھ کو ہوا ، معاملے کے حل کیلئے مزید وقت دیا جائے ۔فاضل چیف جسٹس نے محسن شاہ نواز رانجھا سے استفسار کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ میں کوئی پٹیشن دائر کی ہے ،سمجھ نہیں آئی جب معاملات حل کی طرف جارہے ہیں تو آپ عدالت کیوں گئے ۔آپ ایسے معاملات عدالتوں میں کیوں لاتے ہیں،آپ منتخب نمائندے ہیں خود معاملات حل کریں، ہمارے لیے آسان ہے ہم کیس سن لیں لیکن یہ معاملہ پارلیمنٹ کا ہے ، وہ خود حل کرے ۔ محسن شاہ نواز رانجھانے کہا مسئلہ یہ ہے عمران خان شہباز شریف کیساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے سب کچھ پارلیمنٹیرینز کے ہاتھ میں ہے ، عدالت مداخلت نہیں کرسکتی ، ماضی میں غلط ہوتا رہا لیکن اب پارلیمنٹ کی بالادستی ہونی چاہئے ۔عدالت پارلیمنٹ کو سپریم دیکھنا چاہتی ہے ، پارلیمنٹیرینز کا پارلیمنٹ کے مسائل عدالتوں میں لانا سمجھ سے بالا ہے ، پارلیمنٹ کی عزت اور تکریم کا معاملہ ہے ، اپوزیشن کیساتھ ساتھ حکومتی بنچز کی ذمہ داری زیادہ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا نیلسن منڈیلا نے 24 سال کی قید کے بعد بھی اپنے مخالفین کو معاف کردیا تھا۔ محسن شاہنوازرانجھا نے کہا حکومت کو بھی کہیں نیلسن منڈیلا بنے ۔ وزیراعظم اپوزیشن لیڈر کیساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا بہت بڑے بڑے ایشوز آپ نے پارلیمنٹ میں حل کرنے ہیں یہ تو صرف ممبران کی تعیناتی کا معاملہ ہے ۔ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے ۔ عدالت حکومت اور اپوزیشن کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ لیڈر آف دی ہائوس اور لیڈر آف دی اپوزیشن کی ذمہ داری ہے وہ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کریں اور عوام کا پارلیمنٹ پر اعتماد بحال کریں۔ بعد ازاں فاضل عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 دسمبر تک ملتوی کردی۔