امام زین العابدین ؑ کا قول ہے :اتنی اذیت مجھے کربلامیں نہیں ہوئی تھی،جتنی اہل کوفہ کی خاموشی پر ہوئی ۔کوفہ ایک شہر نہیں بلکہ ایک خاموش امت کا نام ہے ۔جہاں کہیں ظلم ہو اورلوگ خاموش رہیں وہی شہر کوفہ ہے اور اس کے مکین کوفی ۔فلسطینیوں کے قتل پر پورا عالم اسلام کوفہ بنا ہوامگر اہل عرب اس سے بھی چار قدم آگے ۔ عرب حکمران صرف اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کوشاں ۔ بظاہر وہ اپنے اپنے ملکوں کے حکمران مگر امریکہ کے ایجنڈے پر گامزن کیونکہ ان کی حکمرانی کی بقا اسرائیل کی جی حضوری میں مضمر۔یاد رکھیں !حماس نے اسرائیلی دولت‘ طاقت اور گھمنڈ کو خاک میں ملا دیا۔اگر عرب اپنی دولت میں ایک فیصد کا نصف بھی نکال کر اسے دیں تو سارے عرب سکھ سے میٹھی نیند کے مزے کریں ۔چلیں دولت میں سے نصف مت نکالیں، عرب عوام صرف ایک برس کی زکوۃ ہی حماس کے نام کر دیں تو اسرائیل کا خاتمہ یقینی ۔ عرب سلطان عبدالحمید ثانی بنیں نہ کہ تھیوڈور ہرتزل۔ فلسطین کے سینے پر اسرائیل کا ناسور ایک دن یا دہائی میں نہیں ابھرا،اس کے پیچھے ایک صدی کی جدوجہد تھی ۔بارہویں صدی عیسویں میں بیت المقدس میں صرف ایک یہودی تھامگر 1750 میں یہ تعداد150کو جا پہنچی۔اس کے بعد ہی یہودیوں نے ایک ملک کا خواب دیکھا ۔ Herzl Theodore نے1897ء کو سوئزرلینڈ کے پال شہر میں پہلی صہیونی کانفرنس کا انعقاد کیا اور فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے قرارداد پاس کی ۔ اسی کانفرنس میں فیصلہ ہواکہ دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کرنے اور وہاں مستقلاً آباد ہونے پر تیار کیا جائے ۔مالی مدد کے لیے یہودی بنک بنایا جائے ۔ہرتزل کی ہدایت پر یہودی نوآبادیاتی ’’ٹرسٹ تشکیل ‘‘دیا گیا،اس کا ابتدائی سرمایہ ڈھائی لاکھ پونڈ تھا۔اینگلو فلسطین کمپنی نے صہیونی منصوبے کے حقیقی نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا اور بالآخر اسرائیل کے اہم بینکوں میں سے ایک بینک’’ لومی‘‘ بن گیا۔ جنگ عظیم میں برطانوی افواج کی مدد کر کے ۔برطانیہ کو اخلاقی مدد کے لیے مجبور کیا گیا ۔سلطان عبدالحمید ثانی برطانیہ پر اندھا اعتماد کرتے تھے ۔یہودیوں نے برطانوی وفاداری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سلطنت عثمانیہ کے خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کے پاس ایک وفد بھیجا ۔ تین رکنی وفد نے ترک وزیر اعظم پاشا کی موجودگی میں سلطان کو تین پیشکشیں کیں ۔ (1) یہودی قوم، عثمانی خلافت کے ذمہ واجب الادا 133ملین انگلش پائونڈ کی رقم ادا کرنے کو تیار ہے۔ (2)120 ملین فرانسیسی فرنک کے کثیر سرمایہ سے عثمانی خلافت کی حفاظت کے لیے بحری بیڑہ تیار کرنے پر راضی ہے۔ (3) عثمانی سلطنت کو شدید مالی بحران سے نکلنے کے لیے بلاسود 53 ملین سونے کا لیرہ قرض دیا جائے گا۔ اس پیش کش کے بدلہ میں یہود قوم صرف یہ چاہتی ہے کہ یہودیوں کو فلسطین وبیت المقدس میں مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے سال بھر میں جب چاہیں، داخلہ کی عام اجازت دے دی جائے۔دوسرا مطالبہ بیت المقدس کے جوار میں یہودی نوآبادی تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ غیرت مند سلطان عبدالحمید ثانی نے اس پیش کش کو حقارت سے ٹھکرا تے ہوئے، انتہائی نفرت سے وفد کے لیڈر قرصوہ کے چہرہ پر تھوک دیا تھا اور کہا کہ میں ارض مقدس کی دھول بھی تم کو نہیں دے سکتا۔ اس کے باوجود یہودی اپنے کام میں جتے رہے کیونکہ وہ ہمیشہ آنے والے سوبرس کی منصوبہ بند کرتا ہے ۔ہرتزل نے ایک ’’یہودی چارٹرڈ کمپنی‘‘ قائم کی۔ جو تحصیل اراضی کی کمپنی کی طرز پر تھی۔ ہرتزل کی تصور کردہ یہودی کمپنی یہود کی موجودہ ممالک میں موجود تمام جائیدادیں اور مستقبل کی یہودی ریاست کی انکی اراضی و املاک انہیں تفویض کی جائے گی۔ یہ انکی سابقہ املاک کے بدلے انہیں نئی مساوی املاک فراہم کرے گی۔اسی تصور کے تحت برطانوی صہیونی رہنما چائم ویزمین، جو ایک حیاتیاتی کیمیا دان تھے، اس نے بیت المقدس جا کر جافا کے قریب زمین خرید کر ایک اور کمپنی قائم بنائی۔ جس نے3 سال کے اندراندر شمالی فلسطین کے علاقے مرج بن عامر میں تقریبا 10 ہزاردونم زمین حاصل کی گئی، جو ایکڑ کے برابر زمین کی پیمائش ہے، جسکی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کو یورپ اور یمن سے آنیوالے یہودیوں کو مجبوراً جگہ دینی پڑی۔ یہودی منہ بولی رقم دیکر فلسطینیوں سے زمین خریدتے رہے ۔ تھیوڈور ہرتزل کی تقریر کو ایک کتابچے کی شکل دی گئی، جس کا نام رکھا گیا’’یہودی سوال کے جدید حل کی تجویز‘‘اس میںتھیوڈور ہرتزل نے کہا :میرا ایمان ہے کہ ایک حیرت انگیز یہودی نسل وجود میں آئیگی۔ مکابیین پھر سے عروج حاصل کریں گے۔ میں اپنے الفاظ پھر سے دہراتا ہوں : وہ یہود جو ریاست کی آرزو کرتے ہیں ، انہیں ملے گی۔ آخر کار ہم اپنی زمین پر بسیں گے اور ہم امن سے اپنے گھروں میں فوت ہو سکیں گے۔ ہماری آزادی دنیا کی آزادی ہوگی،ہماری دولت دنیا کی دولت ہوگی،ہماری بڑائی سے انکی عزت ہوگی۔ اور وہاں ہم اپنی فلاح کے لئے جو بھی کوشش کرنا چاہیں گے ، انسانیت کے لئے سودمند، مقوی اور طاقت بخش ہوگا‘‘۔ مختلف قسم کے مصائب پر صبر ،ثابت قومی ،دوراندیشی اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور دیر پا منصوبہ بندی نے 1949ء میں انھیںایک ملک دے دیا ۔ غزہ زمین کی ایک تنگ پٹی ہے، جو اسرائیل اور بحیرہ روم کے درمیان واقع ہے ۔ جنوب میں اس کی زمینی سرحد مصر سے لگتی ہے۔صرف 41 کلومیٹر لمبے اور 10 کلومیٹر چوڑے، علاقے میں 20 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں۔1948,49،کی جنگ کے نتیجے میں غزہ پر 19 سال تک مصر کا قبضہ رہا۔اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں غزہ پر قبضہ کیا تھا اور وہ 2005 ء تک اس پر قابض رہا۔ اسی دوران اسرائیل نے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کیں۔ 2005 میں اسرائیل نے غزہ سے اپنے فوجیوں اور آباد کاروں کو واپس بلا لیا تاہم اس نے اس کی فضائی حدود، مشترکہ سرحد اور ساحل پر کنٹرول برقرار رکھا۔ مسلمان حکمرانوں نے کبھی بھی اس ناسور کے خاتمے کے لیے کوشش نہیں کی ۔بس دور بیٹھ کر ہی آنکھیں نکالتے ہیں ۔مٹھی بھر یہودیوں نے آج جینا دو بھر کیا ہوا ہے ۔اس وقت کو سوچیں جب ان کی تعداد زیادہ ہوگی ۔اپنے رویے پر غور کریں۔ آنے والی نسلوں کو سوچیں ۔ علامہ اقبالؔ نے کہا تھا : وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں! جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود