تحریک انصاف سوشل میڈیا کے حوالے سے جو خبریں سامنے آ رہی ہیں افسوسناک ضرور ہیں لیکن ان میں نیا کچھ بھی نہیں۔ شروع شروع میں میرے جیسے لوگوں نے خیر خواہی میں بھی تنقید کی تو تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کے آتش فشاں دامن سے لپٹ گئے ۔ پوسٹ ٹروتھ کے اس بندوبست سے واقف ہونے کی وجہ سے میں نے تحریک انصاف کے کسی صاحب سے کوئی شکایت ہی نہیںکی کیونکہ میں جانتا تھا اس کا فائدہ نہیں ہے۔ یہ شعلہ بیانی ایک حکمت عملی کے تحت اختیار کی گئی تھی اور اس کے لیے آشیر باد چیئر مین تحریک انصاف کی جانب سے حاصل تھی۔ کسی دوسرے رہنماکی جرات نہ تھی وہ اس سوشل میڈیا ونگ کو تہذیب ، اور شائستگی کا مشورہ دیتا۔ یہ ایک نیا تجربہ تھا۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ساتھ تھی مگرفیک اور جعلی سوشل میڈیا اکائونٹس کا بھی ا یک انبار تھا۔ زبانوں کو تلوار بنائے یو ٹیوبرز کی بڑی تعداد اس کاررواں کا حصہ تھی۔ حکمت عملی یہ تھی کہ جو تنقید کرے اس کا ایسا حشر نشر کر دیا جائے کہ اسے بھی سبق حاصل ہو اور دوسرے بھی اس سے عبرت حاصل کریں۔پہلے دن سے میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بد زبانی کوئی حکمت عملی نہیں ہوتی ، یہ طوفان لوٹ کر تحریک نصاف کی طرف واپس آئے گا اور اب وہی ہوا۔ جن کی زبانوں سے خلق خدا پناہ مانگتی تھی ، آج وہ اپنے راستے جدا کر چکے ہیں اور جھوٹ اور سراب کا یہ سارا تاج محل پیاز کے چھلکوں کی طرح آشکار ہوتا جا رہا ہے۔نظریاتی نہیں ، یہ کرائے کے کچھ مشقتی تھے جنہوں نے خود تحریک انصاف کا امیج تباہ کر دیا۔ اس کام میں مگر وہ اکیلے نہ تھے ، ان کا کپتان ان کے ساتھ تھا۔ اس حکمت عملی کی وجہ جو بھی رہی ہو، یہ حکمت عملی درست نہ تھی۔تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو چند دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ ہم ایک سوشل میڈیا ونگ بنا رہے ہیں آپ بھی کچھ وقت نکالیں اور تجاویز دیں۔ بتایا گیا کہ یہ ونگ حکومتی کارکردگی کو نمایاں کرے گا اور جو لفافہ صحافی ہمارے ا وپر تنقید کرتا ہے اس کا ناطقہ بند کرے گا۔ میں نے ان سے عرض کی کہ یہ منصوبہ تین وجوہات کی بنیاد پر ناقص ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ آپ تنخواہ داروں کا ایک لشکر کھڑا کریں گے اور اس کا کام آپ کی کارکردگی بیان کرنا ہو گا ۔ اب روز نئی کارکردگی تو آپ دکھا نہیں پائیں گے۔ لیکن یہ سوشل میڈیا ونگ اپنی ڈیوٹی ادا کرتے ہوئے روز کٹ کٹ کٹاک کرنے پر مجبور ہو گا اور یہ کٹ کٹ کٹاک بغیر انڈے کے ہو گی۔ چند ہی ماہ میں یہ تماشا بن جائے گا۔ دوسری وجہ ہے کہ آپ پر غیر ضروری مالی بوجھ پڑے گا۔ پارٹی فنڈ سے دیں یا قومی خزانے سے دیں ، ہر دو صورتوں میں ایک لشکر کھڑا کرنا مناسب نہیں ہے۔ یہ لشکر اس وقت پورس کا ہاتھی ثابت ہو گا جب حکومت کارکردگی نہ دکھا سکی اور یہ واہ واہ کر رہا ہو گا۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ یہ بد تمیزی میں ان حدود کو چھوئے گا کہ آپ کے لیے مسائل پیدا کرے گا اور لوگ رد عمل میں آپ کے بارے میں حریفانہ انداز اختیار کر لیں گے۔ اس وقت مجھے یہ علم نہ تھا کہ ایک وقت آ ئے گا ، یہ سارا معاملہ میری توقعات سے بھی زیادہ خوف ناک ہو جائے گا۔ خیر مجھے بتایا گیا کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا ، کہا گیا کہ ہمارے پاس مہذب، شائستہ اور غیر ملکی اداروں سے فارغ التحصیل لوگوں کی ایک ٹیم ہے اور ان کے پاس ایسی جدید تکنیک ہے کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں پائے گا۔ میں نے عرض کی کہ تکنیکی امور کا تو مجھے علم نہیں لیکن یہ جو غیر ملکی اداروں سے فارغ التحصیل شائستہ لوگوں کا آپ ذکر رہے ہیں ان میں جن دو چار کو میں جانتا ہوں ، وہ تہذیب و شائستگی جیسے ان الزامات سے بر ی الذمہ ہیں جو آپ ان پر عائد کر رہے ۔ نتیجہ وہی ہو گا جو آپ سے میں عرض کر رہا ہوں ۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا ، حکومت کے مختلف معاملات پر تنقید کرتا رہا۔شروع میں تو خیر رہی مگر ایک وقت آیا کارٹل کی صورت یلغار کی جاتی اور ایسی ایسی گالیاں دی جاتیں کہ میں حیران رہ جاتا کہ لوگ اس جماعت کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ باقی جماعتیں دودھ کی دھلی ہیں۔ ن لیگ تو سیاسی مخالفین کی کردار کشی میں غیر معمولی مہارت رکھتی ہے لیکن اس طوفان بد تمیزی کو جس طرح تحریک انصاف نے انسٹی ٹیوشنلائز کیا وہ اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا۔ اس کے نتائج بھی سب کے سامنے رکھے ہیں۔گالیاں اور نفرت کبھی بھی حکمت عملی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ پارٹی کا اثاثہ مہذب اور نظریاتی لوگ ہی ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں جنون کا ایسا عالم تھا کہ رشتوں میں دراڑیں پڑ گئیں ، دوست ایک دوسرے سے دور ہو گئے ۔ پوسٹ ٹروتھ نے اسے شعور کہا مگر یہ شعور نہ تھا۔ یہ تہذیب و اخلاقیات کا بحران تھا۔ سوال یہ ہے کہ اس سے اب کیسے نکلا جائے ؟سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں نہ کوئی پارسا ہوتا ہے نہ کوئی شیطان۔ یہاں خوبیاں بھی ہوتی ہیں اور خامیاں بھی۔ یہ خوبیاں خامیاں بھی سب میں ہوتی ہیں ۔ ایسے میں معاملہ کرتے وقت خوبی اور خامی کی بنیاد پر کرنا چاہیے۔ کسی ایک کو غدار اور بے ایمان ، چور اور کسی دوسرے کو اللہ کا چنیدہ اور برگزیدہ اور نیک پاک قرار دینا مناسب نہیں ۔ مبالغہ عقیدت میں ہو یا نفرت میں ، ہر دو صورتوں میں ایک المیہ ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات نے امید کی ایک کھڑکی کھولی ہے۔اہل سیاست کو ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا چاہیے اور ایک میثاق اخلاقیات کرنا چاہیے۔ مولانا کی جگہ اس وقت عمران خان ہوتے اور عمران خان کی جگہ اس وقت مولانا ہوتے اور ملاقات کے لیے جے یو آئی کے لوگ چل کر عمران خان کے پاس گئے ہوتے تو اول تو یہ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ عمران خان ان سے ملاقات کرنا بھی گوارا کرتے یا نہیں۔ ساتھ یہ کہ اگر وہ ملاقات گوارا کر بھی لیتے تو تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ اس پر وہ وہ کچھ لکھتا اور کہتا کہ الامان ۔ تصور کر کے ہی خوف آتا ہے کہ کردار کشی اور تضحیک اور تذلیل کی کیسی مہم برپا کی جاتی۔ فضل الرحمن صاحب نے البتہ بار بار اس بات کا ذکر کیا ہے کہ عمران خان کے لیے سپیس پیدا کرنی چاہیے ۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اس طرح سیاست کا مزہ نہیں آ رہا کہ میں تو جلسے کروں مگر میرا حریف جیل میں ہو۔ تحریک انصاف چاہے تو اس رویے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔صرف تحریک انصاف ہی نہیں سبھی کو اس سے سیکھنا چاہیے۔ خود جے یو آئی کے کارکنان کبھی کبھی ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جیسے کہہ رہے ہو ں ہم بھی بڑے ہو کر تحریک انصاف سوشل میڈیا ونگ بنیں گے۔ان سب کو ایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔سیاست اسی کا نام ہے۔