الیکشن کے نتائج حیران کن طور پر تخمینوں اور اندازوں سے مختلف نکلے۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی کے سپورٹر اور ووٹر نے جس جوش و خروش اور جس جذبے سے انتخابات میں حصہ لیا وہ قابل تعریف ہے۔اس کمٹمنٹ کا نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ اس وقت آزاد امیدوار پاکستان کے انتخابات میں دوسری سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کی نسبت سب سے زیادہ کامیاب ہوئے ہیں۔ ان آزاد امیدواروں میں بیشتر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے امیدوار ہیں۔الیکشن سے پہلے کیے جانے والے انداز تخمینے اور سروے پاکستان مسلم لیگ نون کے لیے حالات کو بہت سازگار بتا رہے تھے۔ شاید لاشعوری طور پر یہ نون لیگ کی قیادت کے اندر یہ بات راسخ ہو رہی تھی کہ وہ بہت آسانی سے میدان مار لے گی۔نون لیگ کی قیادت اور ووٹر بھی اس فریب کا شکار تھا کہ بیک ڈور چینلز میں بات طے ہو چکی ہے۔یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ ایسا ماحول کیوں بنایا گیا کہ حالات اور ماحول ایک سیاسی جماعت کے سازگار نظر آنے لگا۔تحریک انصاف کی صورت جو تیسری سیاسی جماعت سیاسی منظرنامے پر ہلچل مچا رہی ہے اس نے بھرپور انداز میں اپنی سیاسی وجود کا احساس دلایااور اس کے ووٹر نے پورے کمٹمنٹ کے ساتھ اپنی جماعت کے امیدوار کو ووٹ دیا اگرچہ وہ ایک عدالتی حکم کے مطابق اپنے نشان بلے سے بھی محروم تھے اور انتخابی مہم بھی نہیں چلا سکے تھے۔ 2013ء کے انتخابات سے لے کر اب تک پی ٹی آئی ہی مسلم لیگ نون کی اصل سیاسی حریف رہی ہے۔ 90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی بمقابلہ نون لیگ تھا لیکن اب پی ٹی آئی کا بمقابلہ نون لیگ ہے۔ اس الیکشن میں صورت حال اینٹی پی ٹی آئی ووٹ تھا اور ایک پرو پی ٹی آئی ووٹ۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے الیکشن مہم میں آزادانہ حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتوں کے مقابلے پر اس سیاسی جماعت کے لوگ بازی لے گئے جن پر پابندیاں بھی تھیں جنہوں نے اپنی الیکشن مہم بھی نہیں چلائی وہ اپنے انتخابی نشان تک سے محروم تھے اور جن پر کئی قسم کے دباؤ تھے اس کے باوجود وہ بڑی تعداد میں فتح سے ہم کنار ہوئے۔تو یہ ایک بالکل نیا منظر نامہ ہے۔انتخابات میں عموماً سیاسی جماعتیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگتی ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ معاملہ مختلف ہے کارکردگی کی بنیاد پر صرف مسلم لیگ ن ہی عوام سے ووٹ مانگ رہی تھی۔مسلم لیگ نون کا ایک اکنامک ویژن ہے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے ایک دفعہ پھر اکثریت حاصل کر لی ہے تو آج کی پیپلز پارٹی کو اپنی نالائقیوں کے باوجود پڑنے والا ووٹ بھٹو کے ساتھ جذباتی وابستگی کا ووٹ ہے۔ پی ٹی آئی کو پڑنے والے ووٹ ان کی کارکردگی پر نہیں تھے۔کارکردگی تو یہ تھی کہ خان صاحب نے پنجاب جیسا ڈائنامک صوبہ اپنے وسیم اکرم پلس بزدار کے حوالے کر دیا گیا۔ ریاست کے اہل اختیار کو یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ دباؤ کے ساتھ آپ لوگوں کی رائے کو نہیں بدل سکتے۔ عوام نے اپنی رائے کا اظہار کیا اور اس رائے کا جو بھی نتیجہ ہے اس کو اب تسلیم کرنا چاہیے۔اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ الیکشن کے نتائج کے بعد تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی کارکردگی اور ماضی میں کیے گئے غلط فیصلوں کے حوالے سے ضرور سوچنا چاہیے۔مثال کے طور پر نواز شریف کے بہت قریبی ساتھی رانا ثنا اللہ کی فیصل آباد سے شکست پر انہیں اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھرپور الیکشن مہم کے باوجود رانا ثنا اللہ عوامی عدالت میں شکست سے دوچار ہوئے۔نواز شریف عوامی جلسوں میں ان کی تعریفیں کرتے اور انہیں اپنا وفادار ساتھی کہتے۔سوال یہ ہے کہ کیا رانا ثنا اللہ نے عوام کے ساتھ بھی کوئی وفا نبھائی یا قائد کے ساتھ ہی وفاداری نبھانے میں ساری توانائیاں صرف کر دیں؟ پوسٹ الیکشن صورت حال چونکہ توقع کے برعکس ہے اس لیے اس صورتحال سے جنم لینے والے بہت سے سوالوں کے جواب آنے والا وقت ہی دے گا اس وقت محض قیاس آرائیاں ہی کی جا سکتی ہیں۔ آنے والے دن سیاسی جوڑ توڑ کے حوالوں سے کافی ہنگامہ خیز رہیں گے۔ایک اہم سوال یہ ہے کہ کامیاب ہونے والے وہ آزاد امیدوار جو حقیقی طور پر پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہیں مگر انہوں نے بغیر سیاسی پارٹی کے نام اور نشان کے اس میں حصہ لیا ہے وہ اس سیاسی سیٹ اپ میں کس طریقے سے اپنا کردار ادا کریں گے۔ وہ تحریک انصاف سے متعلق اپنی شناخت کیسے برقرار رکھیں گے کیونکہ آزاد امید واروں کو کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہونا پڑتا ہے۔مگر یہ شرط تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں پر کیسے عائد کی جا سکتی ہے۔میرے خیال میں کوئی درمیانی راستہ نکالنا چاہیے جس سے وہ اپنی سیاسی شناخت کو برقرار رکھ سکیں سسٹم چلانے کے لیے اس حوالے سے لچک کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہیے۔ان نتخابات میں کچھ ہارنے والے امید واروں نے اپنے مد مقابل جیتنے والوں کو کھلے دل سے مبارک باد دے کر قابل تقلید روایت قائم کی۔خواجہ سعد رفیق کی مثال ہمارے سامنے ہیں کہ انہوں نے لطیف کھوسہ کو مبارکباد دی۔خواجہ سعد رفیق کی شکست کا مجھے دکھ ہوا کہ وزارت ریلوے میں انہوں نے بطور وزیر اپنی بہترین کارکردگی دکھائی اور ٹرین جیسی ہے عوامی سواری کے سفر کو بہتر کیا۔ خیبر پختوا سے ثمر بلور نے بھی انتخاب ہارنے کے بعد جیتنے والے امیدوار مینا خان کے گھر جا کر انہیں خوش دلی سے مبارکباد دی اور پھول بھی پیش کیے۔سعد رفیق اور ثمر بلور ! نفرت اور تقسیم کے اس ماحول میں خوبصورت روایت قائم کرنے کا شکریہ !ہمارے سیاسی منظر نامے کو اسی اعلی ظرفی اور ایسی ہیں کشادہ دلی کی ضرورت ہے!