امریکہ میں ہمارا آخری پڑاؤ ریاست فلوریڈا کا شہر پینسا کولا تھا یہ شہر اپنے حسین ساحلوں اور امریکہ کے نیول ایئر سٹیشن کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے یہاںایوی ایشن کے تربیتی مراکز ہیں۔ اس تاریخی ساحلی شہر کو ملٹری ہیریٹیج کا درجہ حاصل ہے۔ امریکہ میں ہمارے قیام کو 18 روز گزر چکے تھے گھر سے دوری کی اداسی دل سے آکاس بیل کی طرح لپٹی تھی۔جس روز ہم یہاں پہنچے کرسمس میں صرف چھ روز باقی تھے۔پینسا کولا کی پرسکون ساحلی فضاؤں میں کرسمس کے گیت گونجتے تھے۔ ہم پینسا کولا پہنچے تو دوپہر ڈھل چکی تھی اور ساحلی شہر کی خنک ہوا پاکستان سے آنے والے مہمانوں کے چہروں کو چھو کر انہیں خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ائیرپورٹ سے باہر ہمارے استقبال کو موجود امریکی خاتون کے ہاتھ میں پاکستانی جھنڈا دیکھ کر سات سمندر پار پردیس میں ہمارے اداس چہرے خوشی سے جھوم اٹھے۔ پنسا کولا میں ہمارا قیام بر لب ساحل ہوٹل میں تھا جس کی راہداریاں دور دیس سے آئے مہمانوں کو سفید رنگ کی چمکتی ریت سے سجے ساحل تک لے جاتیں جہاں سبز پانیوں کی البیلی لہریں سفید ریت کے ساحل سے ٹکراتیں اور پاکستان سے آئے ہوئے مہمانوں سے سرگوشیاں کرتیں۔ساحلی ہواؤں میں لپٹی پہلی صبح انتہائی خوشگوار تھی واشنگٹن ڈی سی، ڈینور اور ڈیلس میں شدید سرد موسموں کے بعد پنسا کولا کا موسم کم سرد اور خوشگوار تھا۔ ہماری مقامی کوارڈی نیٹر میم سوسن تھیں صبح سویر ے ان سے ہماری ملاقات ہوئی انگوری رنگ کے اسکرٹ میں وہ گڑیا سی معلوم ہوتی تھیں۔وہ گرم جوشی سے سب کو خوش آمدید کہتی جاتیں اور اپنی دوستانہ مسکراہٹ اور گرم جوشی سے ہمارے اداس دلوں کو گرماتی تھیں۔ پینسا کولا میں ہمارے سارے سیشن ریڈیو جرنلزم کے متعلق تھے۔ ہماری گروپ ممبر سعدیہ رفیق زیادہ خوش تھیں کہ انٹرنیشنل وزٹر پروگرام کے لیے ان کا انتخاب ہی بطور ریڈیو آر جے کے ہوا تھا۔ سعدیہ رفیق کا تعلق ریڈیو پاکستان کے ایف ایم پروگرام سے تھا وہ بہت عرصے سے ریڈیو ایف ایم کی مقبول آر جے تھی۔پنسا کولا کے جدید ترین ریڈیو اسٹیشن دیکھ کر مجھے اپنے لاہور ریڈیو اسٹیشن کے قدیم درودیوار اور پرانا فرنیچر یاد آگیا ،جہاں کئی برس تک میں نے لائیو پروگرام کیے تھے مگر یہاں ریڈیو کا سارا سیٹ اپ بہت جدید تھا۔ میم سوسن پاکستان سے آئی ہوئی صحافیوں کی مقامی کو آرڈی نیٹر تھیں وہ یہ کام رضا کارانہ طور پر کر رہی تھیں۔ وہ خوبصورت لباس پہننے کی شوقین تھیں اس عمر رسیدگی میں بھی اونچی ہیلوں والے میچنگ جوتے پہنتیں۔ کپڑوں کے ساتھ ہم رنگ خوبصورت بیگ، گہرے رنگ کی لپ سٹک اور ایک مسکراہٹ ان کی شخصیت کو دلکش بناتی تھی۔ پنسا کولا میں ہمارے قیام کے آخری تین دن سوسن کی ہمراہ میں گزرے۔وہ وقتا فوقتاً ہمیں اپنے بارے میں بتاتی رہتیں یا یوں کہ یہ کہ ہم ان سے پوچھتے رہتے تھے۔سوسن کی عمر 70 کے پیٹے میں ہوگی۔ سامنے ہم انہیں میم ہی کہتے لیکن آف دی ریکارڈ وہ ہماری سوسن آنٹی تھیں۔ مجھے ان کی شخصیت میں بڑی دلچسپی محسوس ہوتی سو وقتاً فوقتاً میں کوشش کرتی کہ لیموزین بس میں ان کے قریب بیٹھوں۔ایسی دوچار نشستوں میں ان کے قریب بیٹھ کر میں جان گئی تھی کہ ان کے شوہر امریکی نیوی میں آفیسر تھے۔ ملازمت کے دوران انہیں جاپان رہنے کا موقع بھی ملا تھا جہاں کی سماجی زندگی میں وہ کافی سرگرم رہتی تھیں۔ مغرب کے سماجی روایت کے مطابق ان کے بچے شادی کے بعد گھر سے جا چکے تھے اور سوسن خودکو مصروف رکھنے کے لیے رضاکارانہ کام کرتی تھیں۔ انہوں نے یہاں ایسے اداروں میں اپنا نام لکھوا رکھا تھا جو غیر ملک سے آنے والے مہمانوں کو امریکہ کی سیر کرواتے ہیں اس کی کوئی خاص وجہ ؟ میں نے پوچھا تو کہتی ہیں مختلف ملکوں اور مختلف کلچر کے نئے نئے لوگوں سے مل کے مجھے زندگی میں تازگی اور نئے پن کا احساس رہتا ہے۔ انہیں دیکھ کر محسوس ہوتا تھا کہ ان کے آس پاس انسانی رشتوں کی کمی ہے اور ہماری صورت میں چند روز ہی سہی انہیں اچھے سامع میسر آئے تھے۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے وقت کو کارآمد بنانے کے لیے کئی طرح کے مشاغل میں اپنا وقت صرف کرتی ہیں۔سوئیٹر بنتی ہیں۔ کروشیا سے مختلف چیزیں بناتی ہیں۔ ایک روز انہوں نے اپنے سر پر ایک خوبصورت سی ٹوپی پہنی ہوئی تھی جس کے اوپر ایک پھول لگا ہوا تھا۔ میں نے ان کی ٹوپی کی تعریف کی تو جھٹ سے بولیں یہ میں نے اپنے پرانے سویٹر کی بازو کاٹ کر بنائی ہے اور پھر اس کے ایک طرف کا بارڈر کاٹ کر پھول بنا کر لگا دیا ہے۔سچی بات ہے میں تو امریکیوں کی کفایت شعاری اور سلیقے کی قائل ہو گئی۔ ایک روز کہنے لگیں میں اپنی بیٹی اور گرینڈ چلڈرن کے لیے کرسمس کے تحفے بنا رہی ہوں میں اپنے ہاتھوں سے ان کے لیے کروشے کی چیزیں بنا رہی ہوں میری بیٹی مجھے کرسمس پر ملنے کے لیے آئے گی میں نے ایسے ہی کریدنے کو پوچھا کہ آپ خود سے کیوں بنا رہی ہیں آپ کوئی بھی کرسمس گفٹ خرید کر بھی تو بیٹی کو دے سکتی ہیں مسکرا کر کہنے لگیں جو چیز میں اسے خود بنا کے دوں گی وہ تو انمول ہوگی نا! اس میں میری محبت گندھی ہوئی ہوگی۔ مجھے اور گلناز کو سوسن آنٹی سے کچھ خاص انس ہو گیا تھا۔ گلناز نے کہا جاتے ہوئے سوسن آنٹی کو جیولری گفٹ کروں گی۔ جی تو میرا بھی تھا کہ انہیں کچھ تحفہ دوں پاکستان سے لائے ہوئے سارے گفٹ میں بانٹ چکی تھی ۔ "مسئلہ ہی کوئی نہیں" میرے پاس ایک پاکستان سے لایا ہوا گفٹ موجود ہے تم وہ دے دو گلناز نے اپنی روایتی خوش دلی سے کہا گلناز اپنے کمرے سے جا کر ملتان کی روایتی بلیو پوٹری کا ایک چھوٹا سا گلدان لے آئی۔پینسا کولا میں ہمارے قیام کا آخری دن تھا جب میں نے سوسن آنٹی کو وہی گلناز والا ملتان کا روایتی نیلے اور سفید نقش ونگار والا پھول دان تحفہ دیا ان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگی۔ محبت سے انہوں مجھے گلے لگا لیا انہیں پاکستانی تحفے بہت پسند آئے تھے۔ ( امریکہ کے زیر طبع سفرنامے کا ایک باب)