جنرل فرحت عباس ثانی کے ساتھ ازکارِ رفتہ سپاہی کی رفاقت کا سفر چار عشروں سے زائدعرصے پر محیط ہے۔ جنرل صاحب اب برادر اسلامی ملک برونائی دارالسلام میں پاکستان کے سفیر کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔ بیرونِ ملک ہونے کی بناء پر ان کے ساتھ ایک عرصے سے با لمشافہ ملاقات تو نہیںہوسکی، تاہم بذریعہ فون رابطہ مسلسل برقرار ہے۔ کئی مواقع پراہم قومی اور عالمی معاملات پر ان کے فکر انگیز خیالات ہمارے متعدد کالموں کی تخلیق کا سبب بھی بنے۔زیرِ نظر مضمون کا بنیادی محرک سفیر محترم کی طرف سے دی جانے والی A Resilient Pakistanنامی کتاب سے متعلق آگاہی ہے کہ جو ان کی حالیہ کوششوں کے نتیجے میں برونائی میںریڈنگ اینڈ لٹریچر ایسوسی ایشن نامی ادارے نے بڑی محنت سے ترتیب دی ہے۔ کتاب پاکستان اور برونائی کے مابین چالیس سالہ برادرانہ سفارتی تعلقات کا احاطہ کرتی ہے اوراگلے سال مارچ تک شائع ہوکر عام دستیاب ہو گی۔ ہمیں یہ جان کر بے حد خوشگوار حیرت ہوئی کہ کتاب ناصرف مقامی سکولوں میں پرائمری سطح پر پڑھائی جائے گی بلکہ بطور اختیاری مضمون اعلیٰ تعلیمی نصاب میں بھی شامل ہو گی۔ کتاب کی اشاعت اوراسے وہاں کے نصاب میں شامل کئے جانے کا بنیادی مقصد مغرب کی طرف مائل نوجوان نسل کو ایک برادر اسلامی ملک سے روشناس کرناہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کوشش اسی عزمِ مسلسل کی ایک کڑی ہے کہ جواپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی سفیر محترم نے پاک برونائی تعلقات میں ہمہ جہت تبدیلی لانے کے باب میں باندھا تھا۔ برونائی دارالسلام جنوب مشرقی ایشیا میں واقع، جنوری 1984ء میں برطانیہ سے خود مختاری پانے والاایک چھوٹا سا مگر حیران کن حد تک خوشحال مسلمان ملک ہے۔پاکستان اور برونائی کے درمیان گرم جوشی، اخلاص اور اسلامی اخوت پر استوار رشتہ روزِ اول سے موجود ہے۔ دو ملکوں کے مابین یہ تعلق مشترکہ مذہبی اورثقافتی بنیادوں پر استوار ہے۔ ہر دو کے طرزِ معاشرت حتی کہ کھانے پینے کی عادات میں بھی حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ تاہم سفیرِ محترم کا خیال ہے کہ دونوں برادر ملکوں کے باہمی رشتے میں پائی جانے والی فطری گرم جوشی کے باوجود تعلقاتِ کار کو وسعت دیئے جانے کی گنجائش اب بھی موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ ریاستوں کے درمیان تعلقات قومی مفادات کے تابع ہوتے ہیں ۔ تاہم یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ روائتی سفارت کاری سے ہٹ کر دونوں ملکوں کے مابین سیاحت، ثقافت، تعلیم اورکاروبار سمیت مشترکہ دلچسپی کے کئی مزیدمواقع تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ برونائی میں مقیم پاکستانی گھر سے دور ’اپنے دوسرے گھر ‘کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار بخوبی سرانجام دے رہے ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد سے لے کر اب تک لاتعداد پاکستانی ڈاکٹر، انجنیئر اور اساتذہ برونائی کی تعمیر وترقی میں اپنا بھر پور کردار ادا کر چکے ہیں۔ برونائی میں آج بھی نافذ العمل شریعہ قانون ایک ممتاز پاکستانی ڈاکٹر انوار صاحب نے ترتیب دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب برونائی دارالسلام میںتقریباََ تیس سال گزارنے کے بعد آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔تارکینِ وطن پاکستانیوں کی ان مخلصانہ کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ مقامیوں میں ان سے متعلق عمومی طور پر قدرو منزلت کا احساس پایا جاتا ہے۔ سفیرِ محترم کی رائے ہے کہ خیر سگالی کے ان دو طرفہ احساسات کی بنیاد پر کھڑی ریاستی تعلقات کی مضبوط عمارت اگرچہ پہلے سے موجود ہے،تاہم اسے معروضی حالات اورعالمی کرداروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔سفیرِ محترم کا خیال ہے کہ جغرافیائی محل وقوع کی بناء پرکئی علاقائی ممالک کے لئے برونائی کی منڈیوں پراثر انداز ہونا آسان ہے۔ چنانچہ لازم ہے کہ دو ملکوں کے مابین ثقافتی، سفارتی اور کاروباری تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لئے کچھ’آئوٹ آف دی باکس‘سوچا اور کیا جائے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر سفارت کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہی برونائی کے اعلیٰ حکام سے میل ملاقاتوں کا آغاز کیا گیا۔ عہدہ سنبھالتے ہی پاکستانی وزارتِ خارجہ اورایوانِ صدر کوبرونائی کے سلطان کو پاکستان کے دورے کی دعوت دیئے جانے کی تجویزبھیجی گئی۔انہی مسلسل کاوشوں کے نتیجے میں اب اُمید کی جارہی ہے کہ سال 2024ء کے آغاز میں برونائی کے سلطان ، اہم ریاستی عہدیداروں کے ہمراہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچیں گے۔ ان کے اس دورے میں متعدد معاہدوں اور مشترکہ یادداشتوں پر دستخط کئے جانے کی توقع کی جارہی ہے۔ سلطان کے وفد میں پرنس متین بھی شامل ہوں گے کہ جو ایک اہم پاکستان دوست شخصیت کی پہچان رکھتے ہیں۔پرنس متین سینڈ ہرسٹ سے فارغ التحصیل ہیں اور نا صرف برطانیہ بلکہ آسیان ملکوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔شہزادے کو مستقبل میں وزارتِ خارجہ جیسی اہم ذمہ داری ملنے کا امکان ہے۔ پرنس متین اور معروف کاروباری ادارے سن لِٹ کے مالک جیکسن ٹنگ جیسی پاکستان دوست شخصیات کا سلطان کے متوقع دورے کے دوران سرکاری وفد میں شامل ہونا دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کے کئی نئے دریچے وا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔جیکسن ٹنگ اور ان کی صاحبزادی سِن سِن نے حال ہی میں’ الفا چیلنج‘ نامی پہاڑوں پر رکاوٹوں کو عبور کرنے کے ایک جان گسل مقابلے کا اہتمام کیا تھا۔خیرسگالی کے طور پر سفیرِ محترم نے مقابلے میں بنفسِ نفیس حصہ لے کر پاکستان ملٹری اکیڈمی کے ’اسالٹ کورس‘ کی یادیںتازہ کیں۔ سفیرِ محترم کی رائے ہے کہ پاکستان اور برونائی کے درمیان تجارت کے وسیع مواقع موجود ہونے اورخطے میں دیگر کھلاڑیوں کے اثر و رسوخ کو مدِنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ پاکستان ’مقامی برینڈنگ‘ کے پہلو پر توجہ دے۔ معیار کی کڑی نگرانی کے ذریعے ہی برونائی کی منڈیوں میں بھارت اور بنگلہ دیش کی مصنوعات کامقابلہ کیا جا سکتا ہے ۔ بتایاگیا ہے کہ حال ہی برونائی میںچاول کی نئی قسموں کی کاشت کے لئے ایک باقاعدہ سٹڈی کا آغاز کیا گیا ہے۔ پاکستان کے لئے اس میدان میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنے میںکوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے کہ جہاں دنیامیں چاول کی بہترین سمجھی جانے والی اقسام کاشت کی جاتی ہیں ۔دوسری طرف ثقافتی میدان میں وفود کے تبادلے اور عوامی سطح پر روابط کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ابتدائی طور پر ،پی ٹی وی کے سنہری دور کے ڈرامے کہ جو چین سمیت دیگر ممالک میں رغبت سے دیکھے جاتے رہے ہیں، سب ٹائیٹلز کے ساتھ برونائی میں بھی نشر کئے جا سکتے ہیں۔ برونائی کی میڈیا انڈسٹری میں وسعت کی بڑی گنجائش موجود ہے۔ پاکستان اس باب میں اپنا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایک درد مند پاکستانی کی حیثیت میں سفیرِ محترم کو سبز پاسپورٹ کی بے قدری کا بھی شدت کے ساتھ احساس ہے۔ یاد رہے کہ سبز پاسپورٹ کے حامل پاکستانیوں کواِ س وقت صرف نیپال اور مالدیو ’آن ارائیول‘ ویزہ دیتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے شہریوں کی ایک دوسرے کے ہاں آمد کو آسان بنانے کے لئے برونائی کے ساتھ’ آن ارائیول ویزہ ‘کی دو طرفہ سہولت پر اتفاق دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد میں ہو گا۔