بلاول بھٹو آج کل انتخابی مہم پر ہیں۔ مخالف سیاست دانوں بالخصوص مسلم لیگ نواز کے قائد سے متعلق ان کے تند و تیز بیانات اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر بہت نمایاں ہو رہے ہیں۔سلیکٹڈ کی آوازیں ، جو اس سے قبل 2018 کے انتخابات کے بعد سنائی دی گئی تھیںاس بار انتخابات سے پہلے ہی سنائی دے رہی ہیں ، آج کل بلاول بھٹو کا بیانیہ بنی ہوئی ہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور انتخابی حر کیات کو سمجھنے کے لئے ان کا یہ بیان انتہائی دلچسپ اور معنی خیز ہے جو انہوں نے لوئر دیر میں دیاتھا۔انہوں نے کہا : ’’ رائیونڈ کا وزیر اعظم کوشش کر رہا ہے کہ چوتھی بار سلیکٹ کیا جائے،تین بار ناکام ہونے والا اب کون سا تیر مار لے گا۔ ہمیں پتہ ہے میاں صاحب چوتھی بار آکر کیا کریںگے میاں صاحب نے پھر ان ہی سے پنگا لینا ہے جو انہیں دو تہائی اکثریت دلوائینگے۔ ووٹ کی بے عزتی نہ کریں ایک بار الیکٹ ہو کر آجائیں تو مان جائونگا چوتھی بار سلیکٹ ہوئے تو کوئی نہیں مانے گا۔‘‘ اس سے پہلے اسی ضمن میں ’’ لیول پلئینگ فیلڈ‘‘ کاشور بھی اٹھ چکا ہے۔انتخابات کے ماحول میں ان دو اصطلاحوں کے استعمال کئے جانے سے پاکستان کے سیاسی نظام کی ساخت ، اہلیت اور اس پر اثر انداز ہونے والے عوامل کا بخوبی پتہ چلتاہے۔ پاکستان میں انتخابات سیاسی عمل کا حصہ تو ضرور بنتے رہے ہیں مگر وہ جمہوری سیاست کے فروغ اور اس کے استحکام میں مددگار نہیں ہوتے۔ جمہوری سیاسی نظام میں عوام کی موثر شرکت انتخا بات کے ذریعہ ہی ممکن ہوتی ہے ۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ انتخابات کا عمل جمہوری اور سیاسی اقدار کے مطابق شفاف ہو ۔ اگر انتخابات کے عمل میں شفافیت نہ رہے تو پھر پورا سیاسی نظام جمہوری اوصاف سے محروم ، کمزور اور عدم استحکام سے دوچار رہتا ہے۔ پاکستان کا سیاسی نظام اس کی ایک مثال ہے۔ سیاسی نظام کی کمزوری کا آغاز انتخابات میں عدم شفافیت سے ہوتا ہے۔ انتخابات میں شفافیت( TRANSPARENCY) ایک جامع اصطلاح ہے۔ یہ ہمہ جہت (MULTI-DIMENTSIONAL) ذمہ داریوں کی متقاضی ہے اور انتخابات کے لئے ناگزیر ہے۔ شفافیت کا تقاضہ ہے کہ انتخابات منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ رائے دہندگی کی بنیاد پر ہوں ۔سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی شرکت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ۔ انتظامیہ کسی عصبیت کا شکار نہ ہواور انتخابات کے نتائج عوامی رجحانات کے مطابق ہوں۔پاکستان میں شاذ ہی ایسے انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا ہو۔ ( 1970 میں ہونے والے انتخابات کو محض ایک استثنیٰ سمجھا جائے ) پاکستان میں سلیکٹڈ ، لیول پلیئنگ فیلڈ اور الیکٹبلز جیسی اصطلاحات کا مروج رہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ سیاسی نظام غیر سیاسی اور غیر جمہوری قوتوں کے زیر اثر ہے ۔ انتخابات میں شفافیت مشتبہ اور غیر اطمینان بخش ہے اور یہ کہ انتخابی نتائج عموما عوامی امنگوں اور ان کے سیاسی رجحانات کے مطابق نہیں ہوتے۔ یہ قوتیں انتخابات کے دوران، اس سے قبل اور اس کے بعد اپنی پسند ،حالات اور ضرورت کے مطابق اثر انداز ہو کر ’’ مثبت ‘‘ نتائج کے لئے کوشاں رہتی ہیں تاکہ سیاسی نظام ان کی گرفت میں رہے ۔تشویشناک پہلو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ، پارلیمنٹ اور رائے سازی کے ادارے اس صورتحال پر ایک خاموش سمجھوتہ کئے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنے کی کوئی راہ اختیار نہیں کرتے۔موجودہ انتخابی ماحول بھی اسی کیفیت سے دوچار ہے ۔ کوئی کتنا ہی انکار کرے مگر یہ صاف نظر آرہا ہے کہ ان انتخابات میں مسلم لیگ نواز کے لئے تمام تر آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں ۔مقدمات ختم ہو رہے ہیں ،ضبط شدہ مالیاتی اثاثے واپس کئے جارہے ہیں اور الیکٹبلز کی شمولیت مستقبل کی سیاسی سمت کا تعین کررہی ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس پاکستان تحریک انصاف کے لئے ان انتخابات میں شرکت کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔یہ بالکل وہی صورتحال ہے جو 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو درپیش تھی۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ تحریک انصاف کی پشت پر تھی اور اسی لئے عمران خان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہا جانے لگا اور اب یہی تمغہ (بقول بلاول بھٹو زرداری )نواز شریف کے سینے پر سجا دکھائی دے رہا ہے۔ تمام ہی سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے درون خانہ سہولت کاری کی خواہاں ہوتی ہیں۔ سیاسی نظام میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کو کمزور رکھنے میں الیکٹبلز کی موجودگی بھی بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ الیکٹبلز ( انتخابات جیتنے والے با اثر افراد ) تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتے ہیں ۔یہ افراد اپنے اپنے علاقوں میں ذاتی حیثیت میں مالیاتی ، مذہبی قبائلی یا برادری کے سربراہ ہونے کی طاقت کے بل بوتے پر انتخابات جیتنے کی اہلیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ سیاسی ہوا کا رخ دیکھ کر یہ سیاسی جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں بھی انہیں اپنا بنانے میں تامل نہیں کرتیں ۔یوں ہر دو کی ، سیاسی جماعتوں اور الیکٹیبلز ، سیاست کامیابی کے ساتھ چلتی رہتی ہے۔ الیکٹبلز کی موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی موزوں رہتی ہے ۔ ان کی حسب موقع اور مصلحت جماعتی وابستگی کی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے لئے سیاسی نظام پر اپنی گرفت رکھنے مددگار رہتی ہے۔ پاکستان کا موجودہ سیاسی نظام سیاسی جماعتوں، اسٹیبلشمنٹ اور الیکٹیبلز کے لئے موزوں ترین ہے ۔تمام ہی وابستگان کو یہ نظام اور اس کا استقرار راس آچکا ہے۔ صرف جمہور ہی اس کے ثمرات سے محروم ہیں مگر کب تک ؟