مکرمی! ہمارا معاشرہ سماجی و اخلاقی اقدار سے دن بہ دن عاری ہوتا جارہا ہے۔ کل تک ہماری اقدار یہ تھیں کہ محلہ بھر کو اپنے گھر کی طرح سمجھا جاتا تھا ، جہاں ایک دوسرے کے درد کو محسوس کیا جاتا تھا ۔ محلہ بھر کے لوگوں کی حفاظت کا خیال دل میں ہوتا تھا۔بزرگوں کو اپنا محافظ اور بچوں کو اپنی ذمے داری سمجھا جاتا تھا ۔ رشتوں کے احترام کی محلہ سے شروع ہوتی یہ کہانی شہر اور ملک و ملت تک جاتی تھی مگر آج ہمارے محلے اور شہر تو ایک طرف اپنے گھر بھی ہمیں تحفظ کا احساس نہیں دلاتے ، خون کے رشتے تک قدر کھو چکے ہیں۔ سروے رپورٹس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 15000 افراد ہر سال خود کشی کرتے ہیں۔ جس کے لیے تعلیم و صحت ، ہائوسنگ ، ٹرانسپورٹ، انصاف تک رسائی نہ ہونے کے ساتھ ساتھ غربت اور بے روزگاری کو بنیادی محرکات قرار دیا گیا ہے۔ یہ محرکات انتہائی درجے کا تنائو پیدا کرتے ہیں ،جس سے مختلف ذہنی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ، اور اْن کی لپیٹ میں آکر فرد خود کشی کا ارادہ کرلیتا ہے۔ یہ تو ایک فرد کی خود کشی کی کہانی ہے لیکن یہ وجوہات دیگر معاشرتی برائیوں اور تضادات کے ساتھ ملکر سماج بھر کی خود کشی کا باعث بنتی ہیں۔دیکھا جائے تو انفرادی ہو یا اجتماعی دونوں خود کشیوں کی صورت میں ذمے دار ریاست اور ریاست کا قانون ہی ہوتا ہے۔ کیونکہ درج بالا تمام ضروریات اور معاملات کی نگرانی اور اْن کے تحفظ کی ذمہ داری بالواسطہ یا بلاواسطہ ریاست کی ہوتی ہے۔ ملک و ملت میں موجود خاندانی ، نسلی ، مذہبی اور سماجی خلفشاروں کو سمجھنے کے لیے نیک نیتی سے نہ صرف سروے کرانے ہوں گے بلکہ سروے میں ظاہر ہونے والے حقائق کی روشنی میںحب الوطنی اور قومی جذبے کے ساتھ معاشرے کی اِز سر ِ نو تعمیر کیلئے اصلاحی اقدامات کرنے ہوں گے۔(میاں عاطف شہزاد ،مظفرگڑھ)