قدرتی آفات کی کئی اقسام ہیں۔ زلزلے، سیلاب، سونامی، برف باری۔اب چند سالوں سے ایک نئی آفت آئی ہے جس کا نام سموگ ہے۔ سموگ کی وجہ سے فضائی الودگی خطرناک حد تک ہو جاتی ہے اور انسان کا سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ پہلے کچھ سالوں میں عام لوگ اسکو دھند سمجھتے رہے۔ دھند بارش اور برف باری کے درمیان کی سٹیج ہے جس میں سرد موسم میں نمی اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ وہ بادلوں کی شکل اختیار لیتی ہے اور فضا میں کچھ نظر نہیں آتا۔ دھند کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑتا ہے، فلائیٹس رک جاتی ہیں ، ٹرینوں کا سفر متاثر ہوتا ہے اور عام ٹریفک کو بھی بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس کے انسانی صحت پر کوئی زیادہ برے اثرات نہیں ہوتے۔ البتہ سموگ کا مسئلہ زیادہ گمبھیر ہے۔ اس میں فضائی آلودگی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ جاندار کا سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔سموگ دھند اور دھواں کا ملاپ ہے۔ جس میں فوگ یعنی دھند میں کاربن پارٹیکل معلق ہو جاتے ہیں اور فضا میں نظر زیادہ کانہیں کرتی۔پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے سموگ نے بہت تباہی پھیلا رکھی ہے۔ اکتوبر کے مہینے سے سموگ شروع ہو جاتی ہے اور دسمبر تک یہ رہتی ہے۔ پھر دھند کا موسم آجاتا ہے اور یوں اکتوبر سے جنوری تک کاروبار زندگی معطل رہتا ہے۔ سکولوں میں چھٹیاں ہو جاتی ہیں۔ بھٹے بند ہو جاتے ہیں یوں اینٹ بنانے کا کام بند ہونے کی وجہ سے کنسٹرکشن کا کام رک جاتا ہے ملک کا ایک بڑا طبقہ بے روز گار ہو جاتا ہے۔فضائی آلودگی کی وجہ سے سانس کی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں اور یوں کروڑوں روپے ادویات پر صرف ہو جاتے ہیں۔ سموگ کی سب سے بڑی وجہ دھواں ہے جو صنعتوں کی وجہ سے فضا میں داخل ہو تا ہے دوسری بڑی وجہ گاڑیوں کو دھواں ہے جو 24گھنٹے فضا میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ اب ہمارے ہاں حکومت نے سموگ کا صرف ایک حل نکالا ہے کہ سکولوں میں چھٹیاں کر دی جاتی ہے اور اینٹیں بنانے والے بھٹے تین ماہ کے لئے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے جس سے پناڈول سے بخار وقتی طور پر کم ہو جاتا ہے،ختم نہیں ہوتا۔ ہماری حکومت کی مثال اس عطائی ڈاکٹر کی ہے جو زخم کا علاج کرنے کے بجائے پین کلر پر انحصار کرتا ہے۔اس وقت ہمیں دو باتوں پر سب سے زیادہ دھیان دینا ہوگا ۔ پہلے نمبر پر کاربن کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے۔ اس سلسلہ میں کوئلہ، گیس اور تیل کا کم سے کم استعمال کیا جائے۔ بجلی پیدا کرنے کے لئے پانی، ہوا اور سولر انرجی پر انحصار کیا جائے۔ موٹر سائیکل اور کاریں وہ استعمال کی جائیں جن میں بجلی کی بیٹری کا استعمال ہو۔پبلک ٹرانسپورٹ کا معیار بہتر بنایا جائے تاکہ ہر ایک بچے کے لئے ایک گاڑی سڑ ک پر ناں آئے۔ کم فاصلہ کے سفر کے لئے سائیکل کا استعمال کیا جائے۔ان گاڑیوں پر پابندی لگا دی جائے جو زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں۔ دوسری بات جو پہلی سے بھی زیادہ اہم ہے وہ یہ ہے کہ فضا میں آکسیجن کی کمی کو پورا کیا جائے۔ اس سلسلہ میں جنگلات کا تحفظ کیا جائے۔ نئے جنگل لگائے جائیں۔ کسانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ درخت اپنی زمینوں پر لگائیں۔ حکومت اپنی نرسریاں یونین کونسل کی سطح پر منظم کرے۔ نوجوانوں کو نرسری کے لئے قرضے فراہم کئے جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جا سکیں۔ اس وقت یہ صورتحال ہے کہ لاہور فضائی آلودگی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا ہے۔آلودہ پارٹیکل جن کی 150سے زائد تعداد انسانی صحت کے لئے نقصان دہ سمجھی جاتی ہے وہ لاہور میں 400سے اوپر ہے۔ کسی اخبار میں خبر تھی کہ ایک دن ملتان فضائی آلودہ میں پہلے نمبر پر تھا۔اب تو یوں محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں لاہور، کراچی، پشاور ملتان ،راولپنڈی اور فیصل آباد میں بہت سخت مقابلہ ہوگا کہ کون سا شہر دنیا میں پہلے نمبر پر آئے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلی دس پوزیشن میں سے پانچ پر ہم ہوں۔اب بھی وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں ورنہ وہ عالم ہوگا ہماری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں موجودہ صورتحال بہت ہی خطرناک ہے 21نومبر کو عدلیہ نے سرکاری تعلیمی اداروں کو جنوری 2024تک بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔اب ہفتہ 25 نومبر سے تمام تعلیمی ادارے جو حکومت کی نگرانی میں چلتے ہیں وہ بند ہو جائیں گے۔ یونیورسٹی آ ف شکاگو کے تحت کام کرنے والے ایئر کوالٹی لائف انڈیکس نے جو اعداد و شمار فراہم کیے ہیں وہ بہت ہی خوفناک ہیں ۔ان کے مطابق پاکستان میں فضائی آلودگی کی وجہ سے ہر شخص کی زندگی میں چار سال کی کمی آرہی ہے۔ یونیورسٹی کی ریسرچ کے مطابق اس وقت 98اعشاریہ تین فیصد لوگ جس فضا میں سانس لے رہے ہیں وہ معیاری نہیں ہے۔ سن 2022میں لاہور فضائی الودگی میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ حکومت اب جو اقدامات کر رہی ہے وہ یہی ہے کہ اینٹوں کے بھٹے بند کر دیے جائیں، ایسی گاڑیوں کے چالان کیے جائیں جو زیادہ دھواں چھوڑتی ہیں، اس وقت تک 16ہزار سے زیادہ گاڑیوں کے چالان ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ کی جرمانے ان کو کیے جا چکے ہیں ،اس وقت لاہور میں فضائی آلودگی 30سے 40گنا زیادہ ہے جو کہ ورلڈ ہیلتھ ارگنائزیشن نے معیار مقرر کیا ہے۔ لاہور ڈیڑھ کروڑ ابادی کا شہر ہے اور یہاں پہ صرف چار پانچ جگہوں سے فضائی آلودگی کا ڈیٹااکٹھا ہو رہا ہے جو کہ بہت ہی ناکافی ہے۔پاکستان قوم کی کیا بدقسمتی ہے ناں اسکی اسکی میں جمہوریت ہے نہ تعلیم ہے نہ روز گار۔ پینے کا صاف پانی اسکو میسر نہیں۔ کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ ہے ۔لے دے کہ ایک تازہ ہوا تھی جو مفت میں میسر تھی اب گزشتہ پندرہ سالوں سے وہ بھی کم ہوتے ہوتے محض ایک خواب رہ گئی ہے۔اب غریب عوام کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ انکو خالص ہوا تو ملے۔ ٭٭٭٭