نام و نسب: نام: سراقہ،کنیت: ابو سفیان،شجرہ نسب: سراقہ بن مالک بن عمروبن تَیم بن مدلج بن مُرہ بن عبد مناۃ بن کنانہ الکنانی المدلجی۔(الاصابہ فی تمییز الصحابہ) سُراقہ بن مالک خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تعاقب میں: جس وقت خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو کفار مکہ خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں سرگرداں رہے ۔کفار اپنی سرتوڑ کوشش کے باوجودخاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈ نہ سکے ۔آخرکار ناکام ہو کرسردارانِ قریش نے میٹنگ بُلائی اور یہ فیصلہ کیا کہ جو کوئی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ)کو گرفتار کرکے لائے یا (معاذ اللہ)قتل کرے گا تو اُس شخص کو ہر ایک کے بدلے ایک سو اونٹ بطور انعام دیے جائیں گے ۔ یہ انعام بہت بڑا تھا جس کی لالچ میں آکر کئی اوباش خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے جن میں بنی مدلج کے سُراقہ بن مالک بھی شامل تھے ۔سُراقہ بن مالک کو خبر ہوگئی تھی کہ خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس راستہ سے گزر کر تشریف لے جارہے ہیں اِسی لیے انہوں نے گھوڑا بھی اُسی سمت ہوا کی طرح سرپٹ دوڑایا اور خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پالیا۔ مگر جیسے ہی سُراقہ قریب ہو ئے تو اُن کے گھوڑے نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ وہ گر پڑے ۔ سُراقہ بن مالک کھڑے ہوئے اور تیر سے فال نکالی کہ میں خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان پہنچا سکوں گا یا نہیں؟ فال یہ نکلی کہ سُراقہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے ، مگر پھر بھی وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزید قریب ہوگئے اور جیسے ہی قریب ہوئے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور خود بھی وہ گھوڑے سے گر پڑے ۔دوبارہ سنبھلنے کے بعد سُراقہ بن مالک نے پھر فال نکالی تو وہی پہلے والا جواب ملا۔ سُراقہ بن مالک نے انعام کے لالچ میں تیسری دفعہ جب خاتم النبیین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا تو پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ گھوڑا زمین میں دھنس گیا اور اب کی بار سُراقہ خوف زدہ ہوکر خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معافی مانگنے لگے ۔اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میر۱ سارا سازوسامان لے لیں، میں پیدا کرنے والے کو گواہ بنا کرکہتا ہوں کہ اب اس مصیبت سے نکل گیا تو واپس لوٹ جاؤں گا اور آپ کے تعاقب میں آنے والوں کو بھی ادھر آنے سے روکوں گا۔ خاتم النبیین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمیں تمہارے مال کی ضرورت نہیں،تم اپنا مال اپنے ساتھ واپس لے جاؤ، البتہ جو ہمارے تعاقب میں ہو اُسے واپس بھیج دینا۔سُراقہ بن مالک عرض کرنے لگے : اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! مجھے یقین ہے کہ آپ کا دین پورے عرب میں غالب ہو کر رہے گا،آپ مجھ سے وعدہ کریں جب میں آپ کی سلطنت میں آؤں تو مجھے امان ملے گی لہذا میرے لیے ایک امن کا پروانہ جاری فرمادیں۔ خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا کہ سُراقہ کو چمڑے کے ایک ٹکڑے پر امان نامہ تحریر کردیں۔امان نامہ لے کر سُراقہ جب واپس پلٹنے لگے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سُراقہ بن مالک! جب تم کسریٰ کے کنگن پہنو گے تو تمھیں کیسا لگے گا؟سُراقہ بن مالک حیران ہو کر بولے : کسریٰ شہنشاہِ ایران کے کنگن؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں شہنشاہ ہرمز کے کنگن۔سُراقہ بن مالک حیرانگی اور خوشی کے ملے جُلے تاثرات کے ساتھ واپس پلٹ آئے ۔(صحیح بخاری) سُراقہ بن مالک راستے میں واپس آرہے تھے کہ انہیں کچھ لوگ ملے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں پِھر رہے تھے ،سُراقہ بن مالک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کئے گئے وعدہ کے مطابق اُن سے کہنے لگے :تم لوگ واپس چلے جاؤ، میں نے اِس طرف ہر جگہ اُنہیں تلاش کر لیا ہے اور تم اچھی طرح جانتے ہو کہ پاؤں کے نقوش دیکھنے میں میرا کوئی مقابل نہیں، تم لوگ انہیں کہیں اور تلاش کرو۔ڈھونڈنے والے سراقہ کے کہنے پر واپس چلے گئے ۔ فتح مکہ اور اورغزوہ طائف و حُنین سے واپسی پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جُعرانہ کے مقام پر پڑاؤ کیا توچند انصاری صحابہ نے سُراقہ بن مالک کو پکڑ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا۔سُراقہ بن مالک نے وہی امان نامہ جو انہیں ہجرت کے موقع پر عطا ہوا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمات عالیہ میں پیش کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سُراقہ بن مالک! اب وقت آچُکا ہے تم اسلام قبول کرلو۔ سُراقہ بن مالک نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیک وبارک وسلم! آپ گواہ رہیے میں اسلام قبول کرتا ہوں۔سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا سارا خاندان اسلام لے آیا۔(دلائل النبوۃ) چشم فلک نے پھر وہ دور بھی دیکھا کہ جب سیدنا سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کو سونے کے کنگن پہنائے گے ۔سیرت ابن ہشام میں ہے کہ خلیفہ دوم سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب اسلامی لشکر کے سپہ سالار سیدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایران فتح کیا اور وہاں کا سارا مالِ غنیمت مدینہ طیبہ امیر المؤمنین کی طرف روانہ کیا۔سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے سارے قیمتی مال کا جائزہ لیا اور جب شہنشاہ ہرمز کے سونے کے کنگن دیکھے تو سیدنا سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کو طلب کیا اور وہ کسریٰ کے سونے کنگن انہیں پہنائے ۔سیدنا عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے ہیروں اور جواہرات سے مرصّع تاج بھی انہیں کو پہنا یا اور پھرفرمایا:اے سُراقہ بن مالک! ہاتھ اٹھاؤ اور کہو: تمام تعریفیں اُس اللہ تعالیٰ کی ہیں جس نے یہ چیزیں کسریٰ سے چھین لیں جو کہتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں اور انہیں بنی مد لج کے ایک غریب سُراقہ بن مالک بن جعشم کو پہنا دیں۔ وفات: سیدنا سُراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ نے سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت 24ھ میں وفات پائی۔اللہ کریم آپ کے درجات مزید بلند فرمائے ۔آمین